tariqkhan tareen

بلوچستان میں بین المذاہب ہم اہنگی کے بڑھتے رجحانات

صوبہ بلوچستان جس طرح سے اپنے وسیع میدانی علاقوں، فلک بوس و سنگلاخ پہاڑوں کے ساتھ اپنے محل وقوع رقبے اور وسائل کے لحاظ سے اہمیت کا حامل صوبہ ہےبالکل ایسا ہی اس صوبے میں مختلف اقوام، مذاہب، رنگ و نسل کے لوگوں سے بھی پاکستان کا یہ صوبہ اپنی پہچان میں سر فہرست ہے۔ قدیم ثقافت، تہذیب و تمدن،ذہبی تہوار، اور قدیم العمر میلوں نے دنیا کی نظریں اپنی طرف کھینچ لی ہے، جس کے باعث صوبہ دنیا کے توجہ کا مرکز رہا ہے۔ خوبصورت وادیوں کا نظارہ ،دلکش و دلفریب سیاحتی مقامات، کھائیاں، غار، درے اور صاف پانی،بہتی آبشاریں یہاں کی خوبصورتی کو پوری دنیا میں اعلیٰ و ارفع بنادیتی ہیں۔ صوبے میں مختلف زبانیں جس میں اردو، بلوچی، پشتوں، براہوی، فارسی، پنجابی، سندھی، سرائیکی کے ساتھ ساتھ دیگر زبانیں مختلف مذاہب، تہذیب و ثقافت اور مختلف قوموں کو جوڑنے اور قریب لانے کے لئے اپنا مربوط کردار ادا کر رہی ہے۔

بلوچستان کے شہر قلات میں واقع کالی ماتا مندر میں ہندو برادری کا تین روزہ سالانہ تہوار روایتی جوش و خروش کے ساتھ شروع ہوا۔ مگر اس تاریخ سے پہلے قلات کی تاریخ پر بات کرتے ہے۔ قلات کوقیامِ پاکستان سے محض چھ سال بعد یعنی 1954میں ضلع کی حیثیت ملی۔قلات کا پرانا نام قیقان تھا ضلع قلات کی آبادی چار لاکھ اسی اوررقبہ چھ ہزار چھ سو اکیس مربع کلومیٹر ز ہے ۔اس ضلع کی قلات اور منگچر دو تحصیلیں ہیں، یہاں اکثریت براہوی زبان بولنے والوں کی ہے۔ چند خاندان بلوچی اور فارسی زبان بھی بولتے ہیںجب کہ رابطے کے لئے قومی زبان اردو کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے۔ قلات ضلع بھی نیشنل ہائی وے این 25پر واقع اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 142کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ سی پیک کا مشرقی روٹ ہوشاب، سوراب سے ہوتا ہواضلع قلات کو لنک کر رہا ہے۔ قلات ضلع کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد اسی مقام پر پاکستان سے بلوچستان کا الحاق ہوا تھا اور یہاں بانی پاکستان قائد اعظم رحمہ اللہ کو مہمانی کا شرف دے کر انہیں سونے میں تولا گیا تھا۔

کالی ماتا مندر شاہی بازار قلات میں واقع ہے، مورخین کا کہنا ہے کہ اس مندر کو تقریبا 15 سو سال پہلے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ ایشیاء کا دوسرا سب سے بڑا ٹیمپل ہے جس کے لئے ہندوستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے ہندو برادری کے لوگ اپنی عبادات اور دعاوں کے لئے امڈ اتے ہے۔ قلات کے علاقے میں میں درشن کرنے والوں کی طرف سے مختلف سٹالز لگائے جاتے ہے جس میں خوراک کے مفت چیزیں دینے کے ساتھ انکے مذہب کی کتابیں و دیگر چیزیں بھی دی جاتے ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ جسطرح سے یہ ٹیمپل ایشیاء میں دوسرا بڑا ٹیمپل ہے اسی طرح لوگوں کا مجموعہ بھی دوسرے نمبر پر ہے۔ کالی ماتا کی درشن کرنے کے لئے اس فیسٹول کا آغاز 10 ستمبر سے لیکر 12 ستمبر تک جاری رہا جہاں ایک تخمینے کے مطابق 40 ہزار سے زائد ہندو برادری کے لوگوں سے شرکت کی۔

کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی کوئی چیز نہیں ہے، یہاں پر شدت پسندی سے لیکر دہشتگردی تک کے بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ تو بلوچستان میں امن چین اور خوشحالی ہے اور نا ہی یہاں پر کبھی اس امید لگائی جاسکتی ہے۔ پروپیگنڈوں کی یہ بھرمار دیکھ کر بیرون صوبہ اور بیرون ملک کے لوگ مخمسے کا شکار ہوکر بلوچستان انے سے کتراتے ہے۔ حالانکہ ایساں کچھ بھی نہیں۔ قلات میں ہندو برادری کا پر امن فیسٹول ہونا اور اس میں ہندوؤں کی جوک در جوک شرکت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچستان میں امن و امان نہ صرف برقرار ہے بلکہ یہاں پر خوشحالی پروان چڑھ رہی ہے۔ لہذا ملکی اداروں کو ایسے میڈیا ہاوسز یا پھر پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنی چاہیے جو ملک اور قوم کے امن وامان، خوشحالی، اور ملکی سالمیت کو داو پر لگا کر غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہے۔

بلوچستان کے صوبے کو اللہ تعالی نے اپنے فضل خصوصی میں رکھا ہے۔ وہ لوگ جو اس صوبے کی پسماندگی کو بہانہ بناکر غلط معلومات یا پھر غلط تاثر قائم کرتے ہے ان سے سوال ہے کہ قلات میں میلے کا پرامن انعقاد ممکن تھا؟ الحمداللہ اس میلے کی توسط سے مذہبی ہم آہنگی اور بلوچستان میں سیاحت کے مثبت امکانات روشن ہو رہیں ہیں جو کہ خوشحال بلوچستان کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس طرح کے تہواروں میں دنیا بھر سے سیکڑوں لوگوں کی شمولیت صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، جبکہ یہ جشن بلوچستان کی ثقافت اور سیاحت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ مندر میں ایشیا کی دوسری سب سے بڑی کالی ماتا کی مورتی ہے جس کو دیکھنے کیلئے ہندوستان اور دنیا کے دیگر حصوں سے ہندو برادری کی ایک بڑی تعداد بار بار آتی ہے جو کہ غلط تاثر پیدا کرنے والوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

اس میلے میں مکران، قلات، جنوبی پنجاب، اندرون سندھ اور دنیا بھر کے مختلف ممالک سے سینکڑوں ہندو یاتری اپنی رسومات ادا کرنے کے لیے اس مندر آتے ہیں، یہاں آباد ہندو برادری کے لوگ دنیا بھر سے ائے ہوئے ہندوؤں کو بہتر پاکستان اور خوشحال بلوچستان تعبیریں دیتے ہے، جس سے ائے ہوئے یاتریوں میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے نہ صرف بلکہ انکے ذہنوں میں بٹھائے گئے غلط تاثرات کی نفی بھی ہوجاتی ہے جس پر وہ تمام یاتری ملک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وعدہ کرتے ہے کہ جب ہم اپنے گھروں کو واپس جائینگے تو اس غلط تاثر کو زائل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے اور ساتھ ہی ساتھ پرامن پاکستان اور خوشحال بلوچستان کے حقائق سب کے سامنے رکھیں گے۔ ملک دشمن عناصر نے اپنے پروپیگنڈہ کا رخ خصوصی طور پر اقلیتی برادری کی طرف مائل کر رکھا ہے۔ جن کے لئے ہندو برادری کے مقامی رہنما مَنا مال کا کہنا تھا کہ اس تہوار کا بنیادی مقصد لوگوں کا پیار، امن اور بھائی چارے کے ساتھ اکٹھا رہنا ہے۔ ہندو رہنما مَنا مال نے پاکستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہمی تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ مَنا مال نے یہ بھی کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کو پاکستان سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہے اور اقلیتیں تمام سہولیات سے بہرہ مند ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں