ندیم اختر ندیم

احسانِ عظیم

نئی تحقیق کے مطابق ایک ایسامیٹر ہے جو ہمہ وقت گھومتا رہتا ہےیہ میٹر دنیا میں صرف پاکستان میں پایا جاتاہے، بتایا گیا ہے کہ دنیا میں نئی ایجادات نے انسان کو فائدہ بہم پہنچایا ہے لیکن یہ میٹر خساروں کا ایک طوفان لئے ہوئے ہے ،دنیا میں بننے والی ہر نئی چیز کی دنیا طلبگار، خریدار ہوتی ہے لیکن اس میٹر کا نہ کوئی طلبگار ہے نہ خریدار،اس میٹر کے شاخسانوں میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ستائے لوگ خودکشیاں بھی کررہے ہیں، اس لئے آپ یہ میٹر خرید لے جائیے آپ موت کی تکلیفوں کو بھول جائیں گے ، یہ میٹرآپکا ایسا میٹر گھمائے گا کہ آپ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوجائیں گے۔
قارئین کرام!آپ جان چکے ہونگے کہ یہ میٹر بجلی کا میٹر ہے جو اپنے کمالات میں یکتا ہے اسکا آپکے گھر کے دیوار پہ لگا ہونا شرط ہے ،بجلی کاکنکشن چاہے نہ بھی ہو یہ گھر کی دیوار پہ لگتے ہی چلنا بلکہ دوڑنا شروع ہوجائے گا ، رفتار میں یہ اپنا ثانی نہیں رکھتا،تجویز ہے ان میٹرز کو دشمن کے علاقوں میں پھینکئے دشمن اپنے جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کو بھول جائیں گے اسکے سامنے تمام ہلاکت انگیزیاں ہیچ ہیں ۔سنتے ہیں پاکستان مخالف قوتیں اس میٹر سے ہراساں دکھائی دیتی ہیں اس لئے سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھے ہیں لیکن وہ اس میٹر سے گلوخلاصی کا ہنوز کوئی راستہ نہیںنکال پا رہے لہٰذا یہ بات بعید القیاس نہیں کہ دشمن قوتیں ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک دیں کہ اُنکے پاس اب اور کوئی چارہ نہیں ۔بزرگ بتاتے ہیں کوئی وقت تھا جب بیٹیوں کو جہیز میں حقہ دیا جاتا تھا جدید دور میں بہت سوچا گیا کہ حقے کی جگہ کس مضر چیز کا انتخاب کیا جائے اس لئے اب جا کر کہیں یہ معمہ حل ہوا ہے کہ بیٹی کو رخصت کیجئے تو جہیز میں ایک عدد بجلی کا میٹر دیجئے ،یہ ایک میٹر ہی اس نیک بخت خاتون کے شوہر کو اسکے سامنے سرنگوں رکھے گا۔
پاکستانی اداروں کی عمارتوں پر لکھا ہوتا ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا جہنمی ہیں سو فیصد درست ہے اب تو بجلی کامیٹر دینے والے کو بھی دوزخی سمجھا جارہا ہے ،اس میٹر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ چلنے میں آواز نہیں دیتا لیکن اس سے پڑنے والے اثرات کی گونج انسان کی پوری ہستی ہلا کے رکھ دیتی ہے معلوم ہوا ہے کہ تھانوں میں اب ملزمان سے کسی جرم کا اعتراف کروانے کے لیے ان کے سامنے اب یہی میٹر رکھا جائے گا اور عادی مجرموں کو سزا کے طور ایک ایک میٹر دیا جائے گا جس سے جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ سنا ہے کہ الہ دین کے چراغ کی جگہ اب اس میٹر نے لے لی ہے آپ اسے رگڑے بغیر جسکے سامنے رکھئے گا اس سے جو چاہے نکلوانے میں کامیاب رہے گا۔ پاکستان میں بجلی چور اس میٹر کی آفتوں سے محفوظ ہیں اس لئے بڑے شرفاء اور پارسا لوگ بھی اس میٹر کی اذیتوں سے بچنے کیلئے بجلی چوری پر آمادہ نظر آتے ہیں اور بجلی چوری کیلئے شہریوں نے واپڈا کی مدد مانگ لی ہے جو بجلی چوری کرانے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ عوامی حلقوں کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ سندھ’کچے‘ کے علاقے میں پنجاب اور سندھ پولیس کئی ماہ کے مسلسل آپریشن کے بعد بھی پوری طرح ڈاکوؤں کا صفایا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے تو ڈاکوؤں کے علاقوں میں گولہ بارود کی جگہ بجلی کے یہی میٹر پھینکے جائیں جسکے بعد ڈاکوؤں کا مکمل صفایا یقینی ہے۔ ایک یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شہریوں نے ملک کے کرپٹ سیاسدانوں کے محلات میں یہی میٹر پھینکنے کا فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں سے چھٹکارا پانے کا یہ طریقہ کارگر ہے بلکہ ہم یہاں تک سن رہے ہیں کہ لوگ اس بات پہ متفق ہورہے ہیں کہ واپڈا اہلکاروں کے گھروں میں یہ میٹر پھینکئے ان کا قبلہ درست ہو جائے گا غرض اس میٹر کو ہر مرض کی دوا خیال کیا جا رہا ہے۔یہ نوے کی دہائی کے میٹرک کے سلیبس کی بات جب اس میں بجلی کی ایک نظم ہوتی تھی
؎میرا نام بجلی میرا کام بجلی
سنو ابن آدم میں بجلی ہوں بجلی
کچھ اس طرح کی اس نظم میں بجلی کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا گیا تھا ،بجلی کی افادیت سے کس کو انکار ہے لیکن اب کے بجلی کے جو رنگ ڈھنگ ہیں اسکی روشنی آنکھوں کو چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، اسکی تمام تر رنگینیاں اور رعنائیاں اسکے بلوں کے سامنے پھیکی سی لگتی ہیں، جب پاکستان میں بجلی نے شہروں سے قصبات اور دیہات کا سفر کیا تو قیام پاکستان کے بعد بجلی کو پاکستان کے دیہات تک پہنچتے کوئی ساٹھ سال لگ گئے کہ ابھی چند سال پہلے تک کئی دیہات کو بجلی فراہم کی گئی ہے ایک وقت تھا جس گاؤں میں بجلی جاتی وہاں خوشیوں کے شادیانے بجائے جاتے اور جس گھر میں بجلی کا کنکشن لگتا اسے فخر سمجھا جاتا لوگ اس گھر پر ناز کرتے جس گھر میں ریفریجریٹر ہوتا لوگ اس گھر میں تھوڑی سے گندم لے جاتے اور برف لے آتے۔ جس گھر کے باہر بجلی کا میٹر لگا دیا جاتا لوگ اس گھر کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے پھر بجلی کے اس میٹر نے وہ کمالات دکھائے کہ تغیرات زمانہ کے ساتھ اس میٹر کو اب فخر نہیں بلکہ’فقر‘ سمجھا جانے لگا ہے کہ اس میٹر نے ہر شخص کو محتاج کردیا ہے۔ محتاجی تو رہی ایک طرف گزشتہ چند دنوںسے پاکستان کے مختلف شہروں سے خودکشیوں کی اطلاعات بھی آئی ہیں کہ غربت سے تنگ شخص نے بجلی کا بھاری بھرکم بل پاکر جان دے دی ،بجلی کا یہ بل بظاہر کاغذ کا ہلکا پھلکا ایک ٹکڑا ہے لیکن اس کا بار ایسا کہ اٹھائے نہ اٹھے اور غریب عوام کا اپنے ناتواں کندھوں سے ایسا بارِ گراں اٹھانا خیال و خواب ہے، اس لئے حکومت وقت سے درخواست ہے کہ پاکستان کے شہروں ،قصبوں اور دیہات میں جیسے بجلی کے میٹر لگائے گئے تھے ویسے ہی انہیں اتارنے کا عمل شروع کیا جائے کہ عوام اس سے دلبرداشتہ ہیں حکمرانوں کی جانب سے عوام پر یہ احسانِ عظیم ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں