آخر کار نگران حکومت بھی آگئی اور نگران کابینہ اور مشیر بھی آ گئے ہیں لیکن شاید یہ نگران حکومت بھی عوام کو ریلیف نہ دے پائے کیونکہ اسے بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق چلنا ہے،مقروض ممالک ہمیشہ مقروض رہتےہیں قرضے ان کی آکسیجن ہوتے ہیں جس سے معیشت کا پہیہ گھومنے کے قابل ہوتا ہے۔ 1947ء میں اپنے قیام کے بعد گیارہ سال تک آئی ایم ایف کی بارہا پیشکش کے باوجود پاکستان نے آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیا تھا۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیا اوراب یہ صورت حال ہے کہ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے ہم آئی ایم ایف کے سہارے کب تک زندہ رہ سکتے ہیں اور اس کی ہدایت کردہ پالیسیاں کب تک نافذ کرتے رہیں گے ۔
نگران حکومت نے آتے ہی بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ بھی کر دیا ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ کے بعد اب عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار ہوگی اور مسلم لیگ کے لئے آئندہ الیکشن میں عوامی ردعمل بھی سامنے آئے گا ۔ضروری ہے کہ ہم ملکی اور قدرتی وسائل بروئے کار لا کر آمدنی میں اضافہ کے لئے اقدامات کریںتاکہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔
ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے، ملکی استحکام کے لئے ہر پاکستانی کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ دوسری طرف معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے خارجہ تعلقات کیسے ہیں اور ان کو بہتر بنانے کے لئے حکومتوں کی تبدیلی سے بھی فرق پڑتا ہے اس سلسلہ میں ہم آذربائیجان کےساتھ تعلقات پر غور کرتے ہیں، پاکستان اور آذربائیجان کے مابین تجارت، دفاع اور توانائی کے منصوبوں پر اتفاق ہوا ہے تاکہ پا کستان توانائی بحران پر کنٹرول کر سکے باہمی معاہدہ کے سبب۔ آذربائیجان سے رعایتی ایل این جی کارگو پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے، دونوں ممالک نے اشتراک عمل کومزید مستحکم اور آگے بڑھانے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے تاکہ دوستانہ تعلقات میں استحکام آئے ۔ آذربائیجان پاکستان کی تیل وگیس کے شعبے میں مدد کرے گا۔ آ ذربائیجان نے پاکستان سے آنیوالے چاول پر درآمدی ڈیوٹی کے استثنیٰ کے مربوط نظام کی تیاری پر بھی اتفاق کر لیا ہے جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا ۔آذربائیجان پہلے ہی پاکستان سے درآمدی چاول پر امپورٹ ڈیوٹی سے استثنیٰ دے چکا ہے، شمسی توانائی کے شعبے میں بھی وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔ دونو ں ممالک کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون کو بڑھانے پر بھی اتفاق ہوگیاہے جبکہ باہمی تجارت میں اضافے پر اتفاق پہلے سے موجود ہے ۔ دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے مواقع موجود ہیں، دونوں ممالک عوام کی بہتری کیلئے مل کر کام کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں ۔
دفاعی صلاحیتوں کیلئےدونوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقوںمیں اضافہ کیا جائے گا ۔3ہزار سے زائد جوانوں نے دفا عی سرحدوں کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاہے۔ پاکستان اور آذربائیجان کے عوام ایک دو سرے سے محبت کرتے ہیں، دونوں ممالک اپنے عوام کی بہتری کیلئے ایک ایجنڈے پر کام کر کے بہتری لا سکتے ہیں ۔ آذربائیجان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، روس یوکرین تناز ع کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ جس سے کئی ممالک کی معیشتیں متاثر ہوئی ہیں، موجودہ دور کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات ہوں گے۔ آذربائیجان سے دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافے بھی ہو گا، جموں وکشمیر کے عوام دہائیوں سےبھارتی بربریت کا شکار ہیں، آذربا ئیجان نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق ہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے، گوادر کے ذریعے قریبی ممالک کیساتھ تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ آذربائیجان کیساتھ دوطرفہ سیاسی تعلقات کو تجارت اور سرمایہ کاری کے ٹھوس روابط میں تبدیل کرنا ہمارا ہدف ہونا چاہئے ۔پاکستا ن دنیا کا دوسرا ملک تھا جس نے آزادی کے بعد آذربائیجان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ یکم مارچ 2017 کو ای سی او اجلاس کے موقع پر سابق وزیراعظم اور صدر الہام علیو ف نے دفاعی مصنوعات منگوانےکے معاہدے پر دستخط کیے تھے،روس سےتیل کے معاہدے کی کامیابی کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے اور اس سے ملک کے مسائل میں بھی کمی آئے گی۔ روس سے تیل کی ترسیل کا سلسلہ جاری تھا لیکن پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ روسی تیل سعودی عرب کی نسبت مہنگا پڑ رہا ہے دو جہاز روس سے پاکستان آئے ہیں ۔ ایسے حالات میں فرانس نے بھی پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے گرانٹ دی ہے سعودی عرب اور یو اے ای نے بھی امداد دی ہے۔
خارجہ تعلقات اپنی جگہ لیکن نگران حکومت کو آتے ہی عوامی تنقید پرداشت کر نی پڑ رہی ہے اور مزید برداشت کرنی پڑے گی الیکشن کمیشن نے بھی مقررہ وقت پر اتنخابات کروانے سے انکار کر دیا ہے اور نئی حلقہ بندیوں پر کام شروع کر دیا ہے، عدلیہ اور ایوان صدر کے ادارے بھی پہلے کی نسبت زیادہ متحرک نظر آ رہے ہیں لیکن عوامی مشکلات میں نا قابل برداشت اضافہ اور زندگی کی بقا مشکل ہو گئی ہے۔
