yasir peerzada

اپنی پسند کا مفکر تلاش کریں

کبھی کبھی فلسفیوں کی بھی سمجھ نہیں آتی ، جس کو دیکھو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھا ہے ۔آپ جس بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، آپ کو اپنے مطلب کا فلسفی مل جائے گا۔اگر قنوطی ہیں تو شوپنہار حاضر ہے، اگر رجائیت پسند ہیں تو ایپی کیورس کی تحریریں پڑھ لیں۔اگرا ٓپ کا خیال ہے کہ خارجی دنیا محض ہمارے ذہن کی اختراع ہے تو جارج برکلے آپ کا انتخاب ہونا چاہیے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اِس زندگی میں دکھوں سے نجات ممکن نہیںاِلّا یہ کہ نروان حاصل کیا جائے تو پھر مہاتما بدھ سے بہتر کوئی شخص نہیں جو آپ کے مِڈ لائف کرائسس کا مداوا کرسکے۔اگر آپ کا میلان صوفیانہ اور طبیعت درویشانہ ہے تو مولانارومی سے بہترین مرشِد کوئی نہیں اور اگر مادی دنیا پر حکومت کرنے کے اسرارو رموز سیکھنا چاہتےہیں توپھر میکاولی سے بہتر استاد کوئی نہیں ۔اگرآپ کو خدا اور اُس کے وجود سے متعلق دلائل درکار ہیں تو سینٹ تھامس ایکوائنس سے استفادہ کریں اور اگر آپ کا رجحان الحاد کی جانب ہے تو برٹرینڈرسل کامضمون’میں مسیحی کیوں نہیں ہوں؟‘ پڑھ لیں۔اگر آپ ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دینے کے خواہاں ہیں جہاں ریاست اور فرد کے مابین ایک لکھے پڑھے معاہدے کے تحت امور چلائے جائیں تو ظاہرہے کہ آپ کو فرانسیسی مفکر روسو سے رجوع کرنا پڑے گا لیکن اگر آپ اِس رویے کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں بلکہ اخلاقیات کے ہر پہلو پر سوال اٹھانا چاہتے ہیں، طاقت اور جبروت کو نئے زاویئے سے دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر فریدرک نطشے کے ’اوبرمینش‘ بن جائیں اور اُس کی عجیب و غریب کتاب ’زرتشت نے کہا‘ پڑھنی شروع کردیں۔اگر آپ تاریخ کو ایک جدلیاتی عمل سمجھتے ہیں (نہ جانے اِس کا کیا مطلب ہے) اور یہ کہ تاریخ اپنے عمل اور رد عمل کے نتیجےمیں آگے بڑھتی ہے تو پھر ہیگل کا فلسفہ آپ کے لیے مفید رہے گا لیکن اگر آپ انقلابی سوچ کے حامل ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو ہر برائی کی جڑ سمجھتے ہیں اور یہی آپ کے نزدیک بنیادی فلسفہ ہے تو پھر ہیگل کے فلسفے کو سر کے بل کھڑا کردیں اور کارل مارکس کواپنا آئیڈیل فلسفی مان لیں، آپ کو لگے گا جیسے ہر مسئلے کا حل مارکسزم میں ہے ۔اگر آپ ذاتی مسرت اور خوشی کا راز پانا چاہتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آسودہ اور ہر حال میں مطمئن زندگی کیسے بسر کی جا سکتی ہے تو پھر حکیم سنیکا کے خطوط پڑھ لیں، ایپکٹیٹس کی تعلیمات کا جائزہ لیں یا پھر مارکس اوریلئس کی مختصرکتاب ’استغراق‘ پڑھ لیں، یہ تمام رواقی فلسفی آپ کو سمجھائیں گے کہ اِس زندگی کو گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔لیکن جب آپ اِن حکما کو پڑھ کر فارغ ہوں گے تو پتا چلے گا کہ ایک صاحب البر کامیو نام کے بھی گزرے ہیں جن کا کہنا تھا کہ یہ زندگی ہی بے مقصد ہے ، اِس کائنات میںمعنی تلاش کرنا سعی لا حاصل ہے، انسان یہ کام کرہی نہیں سکتا ۔لیکن اگرآپ کو خود کو اتنا لاچار اور بے بس نہیں سمجھتے اور اِس دنیا کو بھی لغو نہیں مانتے تو بہت اچھی بات ہے ،اِس دنیا میں انصاف کا نظام قائم کریں ، ایسے جیسے امریکی فلسفی جان رالز نے بتایا تھا کہ یوں سمجھیں کہ آپ کوایک نئی دنیا اور اُس کے اصول و ضوابط تشکیل دینے کا کام سونپا گیا ہے مگر اُس نئی دنیامیں آپ کا کردار کیا ہوگا یہ آپ کوبھی نہیں معلوم، صرف اسی صورت میں آپ حقیقی انصاف پر مبنی کوئی نظام تشکیل دے سکیں گے۔یہ کام تو بہت شاندار ہے مگر کیا اِس سے بھی زیادہ ضروری یہ بات نہیں کہ عورتوں کو اُن کے حقوق دیے جائیں، آخر وہ صدیوں سے مردوں کی محکوم رہی ہیں،تو پھر کیوں نہ سب سے پہلے سیمون دی بووا کی ’دی سیکنڈ سیکس‘ پڑھیں۔لیکن یہ تو ہم بہت آگے نکل آئے ، ابھی تو عقل کے بنیادی مسائل ہی طے نہیں ہوئے، انسانی دانش کی حدود ہی متعین نہیں ہوسکیں، ابھی تو اِس پر ہی اتفاق نہیں ہوسکا کہ ہم ہیں یا نہیں ہیں، ڈی کارٹ کہتا ہے کہ چونکہ میں سوچتا ہوں اِس لیے میں ہوں جبکہ کانٹ صاحب فرماتے ہیں کہ انسانی عقل محدود ہے اور اُس میں لا محدود سما ہی نہیں سکتا ۔کانٹ نے اِس کے علاوہ اخلاقیات پر بھی پُر مغز قسم کی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ زندگی میں کوئی بھی ایسی صورتحال یہ جواز فراہم نہیں کرسکتی جس کی بنا پر آپ اخلاقیات کے آفاقی اصولوں کو توڑنے پر آمادہ ہوجائیں۔اِس سے زیادہ خوبصورت بات بھلا کیا ہوسکتی ہے مگر کانٹ سے پہلے سپینوزانامی فلسفی فرما گئے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے ، اخلاقیات اور انسانی آزادی وغیرہ سب وہم کا کارخانہ ہے۔یہ بات سارتر کو بالکل پسند نہیں آئی ، انہوں نے کہا کہ انسانی وجود ہر شے پر مقدم ہے ،انہوں نےوجودیت پر کافی ضخیم کتاب لکھی جس میں انہوں نے انسان کے بارے میں کہا کہ وہ آزاد رہنے پر مجبور ہے۔Condemned to be free کا غالباً یہی ترجمہ ہوسکتا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں یا غلط، اِس کا فیصلہ تو بہت مشکل ہے لیکن اِس کارخانے میں مسمی چارلس ڈارون کو کہاں فِٹ کریں؟ ٹھیک ہے کہ وہ اُن معنوں میں فلسفی نہیں جن معنوں میں ہم اِس وقت بات کر رہے ہیں مگر ’مولوی‘ ڈارون نے زندگی کی ابتدا کے بارے میں جو نظریات پیش کیے وہ آج درست ثابت ہو رہے ہیں اور یہ فلسفے کا بنیادی موضوع ہے۔اب ڈارو ن تو بہت پرانی بات ہوئی ،دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ، کارل پوپر صاحب تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میں تو کچھ بھی نہیں مانتا، سب کچھ ثابت کرو الف سے لے کر ی تک، اِس بات کو انہوں نے ’اصول ردِّ کذب ‘ کا نام دیا ۔چلیے ٹھیک ہوگیا مگر اب زبان کا مسئلہ درپیش ہوا۔اب تشریف لائےجناب لُڈ وگ وگنسٹائن، انہوں نے کہا کہ ہر فلسفی نے الفاظ کو اپنی مرضی کا مطلب دیا ہے جبکہ ہر شخص کے نزدیک کسی بھی لفظ کے کئی مطالب ہو سکتے ہیں، کچھ باتیں ایسی بھی ممکن ہیں جو شاید کہی نہ جا سکتی ہوں اور اُن کیلئے مناسب الفاظ ابھی ایجاد ہی نہ ہوئے ہوں (لُڈ وِگ کے فلسفے کی کم ازکم مجھے تو یہی سمجھ آئی ہے)۔
اب آپ ہی بتائیے کہ اگر بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ انسان دس ہزار سال میں اپنا مافی الضمیر ہی بیان کرنے سے قاصر ہےتو پھر بندہ کس فلسفی کی بات مانے اور کس کی رد کرے ۔ فلسفے سے یہ بیزاری اپنی جگہ مگر اِس کے بغیر گزارہ بھی نہیں کہ یہ فلسفیانہ سوال و جواب ہی تو علم و دانش کی میراتھن کا باعث ہیں۔ بقول غالبؔ’’انہیں سوال پہ زَعم جنوں ہے کیوں لڑیے… ہمیں جواب سے قطع نظر ہے ،کیا کہیے

اپنا تبصرہ بھیجیں