پاکستان کو ہمیشہ سے ہی بے شمار پریشانیوں کا سامنا رہا ہے۔ کبھی مہنگائی، کبھی بجلی، کبھی کرپشن اور کبھی حکومتوں کی تکرار۔ ان سب مسئلوں کے باوجود پاکستان آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اور چل رہا ہے۔ ہر سال بارشوں کے موسم میں پاکستان کو سیلاب کا خطرہ رہتا ہے۔ جب بارشیں حد سے زیادہ ہوتی ہیں تو پاکستان کے بہت سے علاقے زیرِ آب آ جاتے ہیں لیکن اس بار جب سیلاب آیا تو پاکستان آدھے سے زیادہ ڈوب گیا۔ پاکستان کے بہت سے علاقے زیرِ آب آ گئے اور سینکڑوں لوگ بے گھر ہو کئے۔ نہ رہنے کو کوئی جگہ رہی اور نہ کھانے کو کھانا ۔جان و مال کا بھی بھاری نقصان ہوا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔ جب یہ خبر دنیا تک پہنچی تو پاکستان کے حصے میں بہت ساری ہمدردی اور افسوس آیا۔ بہت سے ممالک نے پاکستان کی امداد بھی کی جس کی اس کو بے حد ضرورت بھی تھی۔ اس سیلاب کی وجی معمول سے زیادہ بارشیں ہیں اور اس کے پیچھے کی وجہ ہے تیزی سے بدلتے موسم۔ دنیا بھر میں ایندھن کا استعمال حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ بڑے بڑے ممالک ایندھن اور دوسری دھواں پیدا کرنے والی چیزوں سے فیکٹریوں میں مختلف اشیاء تیار کرتے ہیں۔ جو دھواں بعد میں ماحولیاتی آلودگی اور بے وقت موسمی تبدیلوں کا باعث بنتا ہے۔ جس میں پاکستان نہ کے برابر حصہ دار ہے لیکن اس کے اثرات کا سامنا پوری دنیا کو کرنا پڑتا ہے۔ اس سال کے سیلاب کے بعد اس بات کا اعتراف مختلف ممالک کے نمائندوں نے بھی کیا۔ سیلاب سے بچاو کے لیے پہلے ہی اقدامات کرنے چاہیے تاکہ ان غریب پاکستانی شہریوں کو اپنی جان و مال سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈیم بنانے کے اقدامات کرے تاکہ پانی کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست کیا جا سکے۔ اب یہ وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرے تاکہ پاکستان کو ہر سال ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مختصر یہ کہ ہم قدرتی وجوہات جیسے بارش اور پہاڑوں پر برف کے پگھلنے کو نہیں روک سکتے تاہم انسانی ساختہ وجوہات کو روک سکتے ہیں جیسے ڈیم تعمیر کرنا، نکاسی کا ناقص نظام اور بہت کچھ ہیمں سنگاپور جیسے ممالک سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو سال کے زیادہ تر وقت شدید بارشوں کے باوجود سیلاب کا سامنا نہیں کرتے۔فاطمہ اشفاق
