ارشد اسدی الحسینی

روزہ گذشتہ امتوں میں

سورۃ البقرۃ آیات 183 سے185 کی روشنی میں

👈 موجود تورات اور انجیل سے بھی معلوم ہوتاہے کہ روزہ یہود و نصاریٰ میں بھی تھا جیسا کہ ”قاموس کتاب مقدس“ میں ہے:
روزہ کلیۃً تمام اوقات اور تمام زمانوں میں ہر گروہ، امت اور مذہب میں اندوہ و غم اور اچانک مصیبت کے موقع پر معمول تھا۔(۱)
تورات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیؑ نے چالیس دن تک روزہ رکھا۔ جیسا کہ لکھاہے: جب میں پہاڑ پر گیا تا کہ پتھر کی تختیاں یعنی وہ عہد والی تختیاں جو خدا نے تمہارے ساتھ منسلک کر دی ہیں حاصل کروں اس وقت میں پہاڑ میں چالیس راتیں رہا۔ وہاں میں نے نہ روٹی کھائی نہ پانی پیا۔(۲)
یہودی جب تو بہ کرتے اور رضائے الہٰی طلب کرتے تو روزہ رکھتے تھے: اکثر اوقات یہودی جب موقع پاتے کہ خدا کی بارگاہ میں عجز و انکساری اور تواضع کا اظہار کریں تو روزہ رکھتے تاکہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے روزہ اور توبہ کے ذریعے حضرتِ اقدسِ الہٰی کی رضا و خوشنودی حاصل کریں۔(۳)
احتمال ہے کہ روزہ ”اعظم با کفارہ“ سال میں مخصوص ایک دن کے لئے ہو جس کا یہودیوں میں رواج تھا۔ البتہ وہ دوسرے موقتی روزے بھی تھے مثلاً اور شلیم کی بربادی کے وقت رکھا گیا روزہ و غیرہ۔ (۴)
جیسا کہ انجیل سے ظاہر ہوتاہے حضرت عیسیٰؑ نے بھی چالیس دن روزے رکھے: اس وقت عیسیٰ قوتِ رو ح کے ساتھ بیابان میں لے جائے گئے تاکہ ابلیس انہیں آزما لے۔ پس انہوں نے چالیس شب و روز روزہ رکھا اور وہ بھوکے رہے(۵)
انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے بعد حواریین روزہ رکھتے تھے جیسا کہ انجیل میں ہے: انہوں نے اس سے کہا کہ کیا بات ہے کہ یحییٰ کے شاگرد ہمیشہ روزہ رکھتے ہیں اور دعاء کرتے رہتے ہیں جب کہ تہارے شاگرد ہمیشہ کھاتے پیتے رہتے ہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا جب دولہا (یہ لفظ انجیل کے ترجمہ میں ایسے ہی استعمال ہوا ہے) ان میں سے اٹھا لیا جائے گا اور وہ اس وقت روزہ رکھیں گے۔ (۶)
کتاب مقدس میں یہ بھی ہے: اس بناء پر حواریین اور گذشتہ زمانے کے مومنین کی زندگی انکارِ لذات ، بے شمار زحمات اور روزہ داری سے بھری پڑی تھی۔(۷)

۱۔ قاموس کتاب مقدس، ص۴۲۷۔
۲۔ تورات، سفر تشینہ، فصل ۹، شمارہ ۹۔
۳۔ قاموس کتاب مقدس ص۴۲۸۔
۴۔ قاموس کتاب مقدس ، ص۴۲۸۔
۵۔ انجیل متی، باب ۴، شمارہ ۱ و۲۔
۶۔ انجیل لوقا، باب ۵، شمارہ ۳۳۔۳۵۔
۷۔ قاموس کتاب مقدس ص ۴۲۸۔
📚نقل از تفسیر نمونہ
التماس دعا
ارشد اسدی الحسینی

اپنا تبصرہ بھیجیں