اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیوں ، سیاسی جماعتوں کی چونچ لڑائی کے درمیان ڈالر، چینی، آٹا مافیا ، ذخیرہ اندوزوں، بجلی و گیس چوروں کے خلاف جاری ملک گیر کریک ڈاؤن او رسب سے اہم بندیال کورٹ کی بچھائی بارودی سرنگوں کے نتیجے میں 81سے زائد تمام اہم سیاست دانوں کے میگا کرپشن کیسز کے دوبارہ کھلنے ، احتساب عدالتوں میں راتوں رات ٹرکوں کے ٹرک بھر کے ان کیسز کا ریکارڈ پہنچائے جانے اور نیب میں فوری طور پر حساس اداروں کے قابل ترین تحقیقاتی افسروں کی خدمات حاصل کرنے،فیض آباد دھرنا کیس پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت مقرر ہونے کے پس منظر میں ایوان صدر میں بیٹھے عبوری صدر عارف علوی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی جو کوشش کر رہے ہیں آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ اپنے مرشد کے وفادار تھے یا انہوں نے الگ سے اپنا کوئی ”مرشد“ بنا لیا ہے، کچھ انوکھا کھیل ہی کھیل رہے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی بانسری بجا رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری حیرانی و پریشانی کے عالم میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا الیکشن کمیشن کو معلوم ہے نہ ہی انہیں کچھ پتہ ہے کہ کب ہوں گے؟ صرف ایک جماعت (ن) لیگ کو ہی معلوم ہے۔ گویا کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی طاقت ور ہے، جسے عام انتخابات کی حتمی تاریخ معلوم ہے انہیںشبہ ہے کہ اس طاقت ورکا (ن) لیگ سے کوئی نہ کوئی ایسا مضبوط رابطہ ضرور قائم ہے جس کے نتیجے میں علاج کیلئے لندن گئے بڑے میاں صاحب 21 اکتوبر کو وطن واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم ، جے یو آئی (ف ) اور ممکنہ طور پر جے ڈی اے بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف گرینڈ الائنس کی صورت مشترکہ مورچہ لگانے پر متفق نظر آرہی ہے ، ایسے حالات میں بلاول بھٹو زرداری پُر زور انداز میںجلد عام انتخابات مانگ رہے ہیں اور ان کے والد محترم بھی کہہ رہے ہیں کہ آئینی طورپر تاریخ دینا صرف الیکشن کمیشن کا کام ہے وہ جب چاہے اعلان کرے یا نہ کرے۔ حالات و واقعات کی کڑیاں ملا کر پڑھیں تو صاف نظرآتا ہے کہ دونوں باپ بیٹا بوجوہ اسٹیبلشمنٹ کی رخصتی کے ساتھ ہی(باپ) کی سرپرستی و ہمدردی سے محروم ہو چکے ہیں۔ انتخابی مہم اگرشروع ہوئی تو اس دوران بہت سے راز کھل کر سامنے آئیں گے کہ ماضی قریب میں جس جس نے بھی باجوہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں فیض پا کرعام ساجھے داری نبھائی تھی ان چراغوں میں اب روشنی نہیںرہی۔ بلاول بھٹو زرداری جو ہلکی ہلکی ڈھولکی بجا رہے ہیں دراصل وہ طاقت وروں سے مدد بھی مانگ رہے ہیں اور دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ اگر مستقبل کے سیٹ اپ میں ہم نہیں تو پھر…. قاسم کے ابا تو ہیں ہی جنہیں جپھی ڈال، ہار پہنا کر ہم اٹک جیل سے باہر لے آئیں گے تو پھر کیا کرو گے؟ دیکھتے جائیے، پڑھتے جائیے، مسکراتے جائیے۔ اب تو ہر ایک کو اس کےحال پر چھوڑ دینا چاہئے یہ سوچ کر کہ ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتاہے۔ اسی سوچ کے ساتھ یہ ملک بھی چلایا جارہا ہے۔ اب آپ ہی دیکھئے کہ سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی پرانے کپڑے جھاڑ کر نئی واسکٹ پہنے اچانک ایوان صدر سے نمودار ہوئے ہیں اور تاثر یہ دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خاص بندے ہیں اور کسی خاص مشن پر ایوان صدر تشریف لے گئے تھے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مجھ سے زیادہ قاسم کے ابا کو کوئی نہیں جانتا۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ کیا کریں گے جب چن چڑھے گا تو سب دیکھیں گے۔ مثبت نتائج کا امکان نہ ہوتا تو میں باہر نکلتا ہی نہیں۔ ساتھ ہی کہتے ہیں کہ امپائر کو گیند مارنے سے نقصان ہوگا۔ محمد علی درانی اپنے بارے میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ لوگ مجھے آخری نوابزادہ نصراللہ خان سمجھتے ہیں۔ اللہ اللہ، کہاں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم اور کہاں محمد علی درانی۔ یاد رکھیں کہ قاسم کے ابا کو بھی نہیں معلوم کہ وہ مستقبل میں کیا کریں گے؟ ویسے تو درانی صاحب بلاول کو والد سے معافی مانگنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ وہ (زرداری) جیسا بھی ہے ملک کا صدر رہا ہے۔ میرے ان سے اختلافات اپنی جگہ، میں مر کر بھی ان کی جماعت میں نہ جاؤں، گویا اپنے اپنے دھڑے سے سیاست ضرور ہوگی لیکن مفاہمت کی کوششیں جاری رہیں گی۔ ضرورت پڑنے پر زرداری، علوی بھائی بھائی، قاسم کے ابا بائے بائے والی صورت حال نظر آتی ہے۔ اسلام آباد میں چند گھنٹے قیام کے دوران نگرانوں، نگہبانوں سے مختصر ملاقاتوں کے دوران انتخابات کے بارے میں یہ تاثر ملا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ بڑے پیمانے پر صفائی ستھرائی ہوگی،کچھ کرداروں کو اٹک جیل میں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ مافیا کے گرد گھیرامزید تنگ ہوتا جائے گا، اس بار کسی کو باہر بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا۔ چھوٹے میاں سبحان اللہ! اسی خوف سے لندن سے واپسی کے ایک ہی دن بعد بھاگے بھاگے واپس لندن گئے ہیں کہ انہیں بھنک پڑ گئی ہے کہ حالات ساز گار نہیں کہ وہ بڑے بھائی کو سمجھا سکیں کہ ابھی لندن میںمزیدقیام فرمائیں کیونکہ پاکستان میں بلاتفریق احتساب اور انتخاب ساتھ ساتھ چلے گا۔
