ستر کی دہائی میں نیا پاکستان کے معمارِ دوئم نے فسطائیت سے کام لیتے ہوئے حقوق انسانی کیلئے کام کرنیوالے سیاست دانوں اور عوامی نمائندوں کی اس قدر ٹھکائی کی کہ خان عبدالولی خان جیسا قومی سیاست دان بھی پکار اٹھا کہ اس کو ہٹانے کیلئے اگر ہمیں کسی کی مدد بھی لینی پڑی تو لیں گے، لہٰذا شدید باہمی اختلافات رکھنے والی 9جماعتیں قومی اتحاد کے نام سے اکٹھی ہوگئیں ۔یوں وہ شخص سات سال کی حکومت کے بعد فارغ کیا گیاحالانکہ جیتا ایک مرتبہ بھی نہیں تھا ۔آج اگر وہ شخص زندہ ہے تو وجہ باصلاحیت ، حقائق آشنا اور ہر دلعزیز بیٹی محترمہ بےنظیر کی متوازن سوچ اور جدوجہد کی بدولت، بہرحال وہ جیسا بھی تھا اس نے اپنے ارد گرد اچھے خاصے محنت کش مزدور اور مصائب جھیلنے والے کارکنان جمع کرلئے تھے ۔
پاکستان کا معارِ سوئم بھی دعویدار ہے کہ وہ عوام میں بے حد پاپولر ہے اور جب الیکشن ہونگے تو وہ ٹو تھرڈ میجارٹی سے آئے گا۔ جبکہ حقائق یہ چغلی کھا رہے ہیں کہ ہمارے کرکٹر کی عوامی پاپولیریٹی سطحی و مصنوعی ہے حقیقت میں یہ معمار دوئم جتنی بھی نہیں ۔کسی کی مقبولیت ماپنے کا پیمانہ محض بڑے عوامی جلسے نہیں ہوسکتے۔ الطاف حسین کے جلسے تو ابھی کل کی بات ہیں، لیکن جب سرپرستوں نے سر سے ہاتھ اٹھایا تو ساری مقبولیت تحلیل ہو کر رہ گی ۔ دو دہائیوں سے یہ شخص یوسف بے کارواں کی طرح پھرتا رہا اور پھر جب دست شفقت میسر آیا تو ریاستی مشنری نے 2018 میں وزارتِ عظمیٰ پر بٹھاتے ہوئے عوامی مقبولیت بھی جھولی میں ڈال دی۔ہمارے ملک میں کرپشن کرپشن کا واویلا بھی محض اپنے مخصوص VESTED INTERESTSکی ایک لایعنی کہانی ہے جس کی موجودگی سے درویش کو انکار نہیں مگر اس کا استعمال بطور ہتھیار اس ملک کو برباد کر گیا ہے ،جس کا جی چاہتا ہے اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے یہ ہتھیار استعمال کرتا ہے بعدازاں معلوم ہوتا ہے وہ کرپشن کا محض کھوکھلا پروپیگنڈا تھا ۔
اگر آپ سیاست کو سموتھ چلنے دیں احتسابی و جمہوری اداروں کو مضبوط ہونے دیں تو اس نوع کی آلائشیں آپ سے آپ سسٹم کے پراسس میں دھلتی چلی جائیں گی اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے وسائل جو بھی تھے آپ نے کبھی نہیں بڑھانے کی طرف توجہ دی نہ ترجیحات کی منصوبہ بندی کی پاپولیشن پلاننگ آپ نے کی نہیں اور مضبوط دفاع کے نام پر اخراجات کیے۔بھلے مانسو!ذرا اس ناتواں کشتی پر لادے ہوئے مال مویشی پر ایک نظر تو ڈال لو پھر کسی سے مقابلہ بھی کر لینا ۔
آج بہت سے احباب استدلال کے ساتھ یہ استفسار کرتے ہیں کہ آپ تو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لکھتے بولتے چلے آ رہے ہیں اب ہمارا کرکٹر لیڈر بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے اس نے جیل جانا قبول کرلیا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کےسامنے نہیں جھکا اس پر آپ کا اسے داد دینا یا ساتھ دینا بنتا ہے ۔درویش ایسے تمام احباب کا مغالطہ دور کرنے کیلئے عرض گزار ہے کہ ہماراابو القاسم آئین، جمہوریت، سویلین اتھارٹی یا ہیومن رائٹس کی ابجد سے بھی آگاہ نہیں ،اسٹیبلشمنٹ سے اس کی لڑائی ان اعلیٰ آدرشوں یا سویلین اتھارٹی منوانے کیلئے نہیں، اس کی لڑائی محض اس ایک نکتے پر ہے کہ تم لوگ حسب سابق میری سرپرستی کرتے ہوئے مجھے اقتدار کیوں نہیں دلواتے ؟ وہ تو ہمیشہ یہ کہتا رہا ہے کہ میں سیاست دانوں کو کچھ نہیں سمجھتا سب چوراچکے ہیں میںتو اپنے معاملات اسٹیبلشمنٹ یا طاقتوروں کےساتھ سیدھے کرنا چاہتا ہوں اورانہیں باور کروانا چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس مجھ سے بہتر آپشن کوئی نہیں آپ لوگوں کے ساتھ جتنا تعاون میںکرسکتا ہوں کوئی اور نہیں کرسکتا اس کےبعد اگلی بحث بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ۔
ہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ ہمارے’ جناح تھرڈ ‘کے خلاف ان دنوں ن لیگ والے جس نوع کا نیا پروپیگنڈا کر رہے ہیں یہ قطعی بلاجواز اور اشتعال انگیز ہے، سابق کھلاڑی کی جتنی بھی منفی چیزیں ہیں ان پر تنقیدکرنے سے اس درویش نے کبھی جھجھک محسوس نہیں کی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنونیت کو بھڑکا دینے والے الزامات لگانے شروع کر دیئے جائیں۔ اگر ایک قانون دان سلمان رشدی کا وکیل رہا ہے تو وہ کسی دوسرے کا وکیل کیوںنہیں بن سکتا۔اگر خود ن لیگی اس کی خدمات لیں تو جائز اگر ابو القاسم لے تو ناجائز کیوں؟شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔
کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ پہلے ہی ہماری سوسائٹی میں مذہبی حوالوں سے کس قدر منافرت پائی جاتی ہے۔ پوری قوم پریشان ہےپوری دنیا ہمیں جنونی خیال کرتی ہے ایسی خطرناک پوزیشن میں خود میاں نواز شریف کی صاحبزادی منافرت کو بڑھاوا دینے والے بیان دے رہی ہیں، وہ فوری طور پر غیر ذمہ دارانہ ٹویٹ واپس لیں اور اپنے کارکنان کو بھی پروپیگنڈے سے روکیں کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں پر اسرائیل نوازی یا یہودیوں کی ایجنٹی کے ناروا الزامات عائد کرے بلکہ نگران حکومت اور اسے لانے والوں کے سامنے درویش کی تجویز ہے کہ آئندہ انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن سے ایک ضابطہ اخلاق جاری کروایا جائے کہ جو کوئی بھی جنونیت پھیلانے کیلئے مذہب کا سیاسی استعمال کرےگا وہ انتخابی میدان میں اترنے سے نااہل قرار دے دیا جائے گا اسی سے دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج ابھر سکے گا۔
