شہادت ایک عظیم فلسفہ اسلام ہے۔ ایک ایسی موت جنہیں خوشی خوشی گلے لگایا جاتا جن کے پیچھے انسانیت کے لئے بڑے مقاصد کار فرما ہوا کرتے ہیں۔ موت انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ ایک دردناک کیفیت ہوتی ہے جن سے ہر انسان دور بھاگتا ہیں۔ ہر انسان کبھی ضروریات تو کبھی خواہشات کا پجاری ہوا کرتا ہے۔ صحت سے بھرپور زندگی، مال و اسباب، عزت و جمال اور اہل و اولاد کے لئے ایک انسان کوششیں محنت و لگن کے ساتھ اور حتی الامکان جدوجہد کرتا ہے۔ پھر چاہے کتنا ہی یہ انسان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہی کیو نا ہو۔ چاہے کتنا ہی عمر کے سینکڑے اس پر سرف نا کرے مگر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اس طویل جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا یہاں تک کہ موت انہیں اپنی آغوش میں لے۔ یعنی اپنی ضروریات اور خواہشات کے اس تزویراتی سفر میں کبھی کسی نے سنا ہو کہ کسی انسان نے موت کو اپنے لئے خواہش سمجھا ہو، اور موت بھی ایسی کہ جن سے دنیا والے رشک کرتے ہوئے کہتے ہو کہ اے کاش ہمیں بھی ایسی موت نصیب ہو۔
شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔(سورہ النساء ۔ 69)۔ یہ اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر ایک خصوصی انعام ہے کہ موت (شہادت) کو درحقیقت زندگی بنا دی جاتی۔ ایک مسلمان شہید ہو کر زندہ ہوا کرتا ہے جس پر اللہ تعالی نے اپنے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔ (سورہ البقرہ ۔ 154)۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ : اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ ( سورہ العمران 169)۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ا رواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے ،انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ، ان کے عمل جاری رہتے ہیں ، ان کا اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، ۷ / ۱۱۵، الحدیث: ۹۶۸۶)۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا کہ : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔(سنن نسائی ، کتاب الجہاد، ما یتمنی اہل الجنۃ، ص۵۱۴، الحدیث: ۳۱۵۷)۔ چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی اہل جنت کا اعزاز حاصل کرلیتا ہے تو وہ دنیا کی خواہش نہیں کرتا ما سوائے شہدا کے جو جنت میں رہتے ہوئے بھی کہیں گے کہ اے اللہ ہمیں پھر سے دنیا میں بھیج تو 10 مرتبہ شہید کردیا جاوں۔
یہ اسلام کی روحانی تعلیمات ہے کہ جس پر عظیم فلسفہ شہادت شہیدوں کے خون سے زندہ و جاوید ہوتا ارہا ہے۔ ہمارا صوبہ بلوچستان شہیدوں اور غازیوں کی ایک زرخیز زمین ہے۔ جنہوں نے دہشتگردی دیکھی، جنہوں نے شدت پسندی، تخریب کاری کے ساتھ ہر طرح کی تباہیوں کا مشاہدہ کیا۔ 911 کے بعد سے ابتک دہشتگردی کی شکل میں بلوچستان کے باسیوں نے ہزاروں کی تعداد میں قربانیاں دی جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچستانی زخمی ہوچکے جو عظم و استقلال کے ساتھ آج بھی اپنی زندگیوں کو مصمم ارادی قوت کے ساتھ جی رہیں ہیں۔ ان لوگوں میں بلوچ، پشتون کی قربانیاں سر فہرست ہیں۔ بلوچستان کی زمیں افغانستان اور ایران کے ساتھ متصل ہے جو کہ افغانستان کے ساتھ 1468 کلو میٹر اور ایران کے ساتھ 909 پر مشتمل ہے۔ 911 کے بعد صوبے میں دہشتگردی کی لہر نے بلوچستان کے سائل اور وسائل کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ ملک میں 2002 سے پہلے دہشتگردی نا ہونے کے برابر تھی مگر تب سے آج تک پاکستان میں 1 لاکھ سے زائد قیمتی انسانی ضیاع اور 110 ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑھا۔ دہشتگردی کی یہ لہر آج بھی جاری ہے خدا جانے کہ مزید کتنا نقصان اس ملک کو اٹھانا پڑیگا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں پہلی مرتبہ شہدا فورم کا قیام ہوا ہے جو کہ ایک واضح دلیل ہے کہ بلوچستان کے باسی ایک زندہ دل قوم ہے جو اپنے شہدا کو کبھی فراموش نہیں ہونے دینگے۔ اس فورم کے قیام سے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کو ہر طرح کی معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ایسے قابل تحسین اقدامات سے بلوچستان کے باسیوں کو نہ صرف حوصلہ ملے گا بلکہ انکے ساتھ ہی ساتھ انہیں اس بات پر قائل کیا جاسکے گا کہ شہدا کی سرزمین اپنے شہدا کے خون کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیگا۔ شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ شہید ہم سب کے سانجھے ہوا کرتے ہیں، شہداء کی تکریم نسلی، لسانی اورکسی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہے۔ شہداء ہمارے روشن کل کے لیے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کررہے ہیں۔ اس لئے انہیں بےیارومددگار چھوڑنا ایک محسن کش عمل ہے، شہدا کے اگر ہم شکرگزار نا بنے تو پھر ہم اللہ تعالٰی کے شکر گزار کیسے بن پائینگے؟
ایک بہت ہی بڑی حماقت 9 مئی کو ایک انتہا پسند سیاسی جماعت کی جانب سے کی گئی جب ہمارے شہدا قومی ہیروز کے مجسموں کی بے توقیری کی گئی۔ جب ہمارے قومی اور ریاستی املاک کو ایک ایجنڈے کے تحت نقصان پہنچانے اور ملک کو یرغمال بنانے کی مضموم کوشش کی گئی۔ مگر الحمدللہ عوام پاکستان، افواج پاکستان اور دیگر ریاستی اداروں نے جس حکمت اور مصلحت کا مظاہرہ کیا اس سے شدت پسند جماعت کے ایجنڈے کی دھجیاں ہوا میں بکھیر دی گئی اور ظالم کے ظلم کا جواب صبر سے دیکر بہادری کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔ قوم کا یکجہت ہوکر اپنے شہدا کی تکریم کے کئے بے مثال ریلیاں نکال کر اپنے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ بلوچستان، پنجاب، سندھ خیبر پختونخوا، گلگت اور آزاد کشمیر یعنی ملک کے چپہ چپہ سے مرد عورت، بچے بزرگ سب نے پاکستان زندہ آباد کے نعروں سے ملک کو لرزاں کر رکھ دیا۔ اور ملک دشمن عناصر کو اجتماعی طور پر بھرپور پیغام دیا کہ ہمارے لئے ریاست پہلے اور سیاست بعد کے ترجیح میں ہے، ریاست ہے تو سیاست ہے۔
بحرحال شہدا فورم کا قیام اور اسکے ساتھ اس فورم کے دفتر کا قیام صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں ایک افتتاحی پروگرام کے توسط سے عمل میں لایا گیا۔ افتتاحی تقریب میں سول آرمڈ فوسز اور سیکیورٹی فورسز کے شہداء کی فیملیز کی بطور مہمانانِ خصوصی شرکت ہوئی، جہاں پر لائق تحسین بات یہ بنی کہ شہدا کی 17 مختلف فیملیز نے شہداء بلوچستان فورم کا افتتاح کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قبائلی عمائدین اور سول سوسائٹی ممبران بھی بڑی تعداد میں شریک رہے۔ شہدا کی فیملیز اور شرکاء نے اس احسن اقدام کو خوب سراہاتے ہوئے کہا کہ شہدا ہمارا فخر ہیں جنہوں نے اپنی جان کا قیمتی نظرانہ دے کر دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دئیے۔ قارئین کرام ایسے مثبت اور قابل تقلید اقدامات سے پاکستان بالخصوص بلوچستان کی ایک بہتر تشخص اجاگر ہوسکتی ہے۔ شہدا کے ساتھ یکجہتی اور انکے مسائل متعلقہ اداروں تک پہنچانے میں اس فورم کا کردار اہمیت کا حامل ہے جس سے شہدا کی فیملیز کو ہر طرح کے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہو پائے گا۔