سیانوں نے سیاسی گھڑوں میں کنکریاں ڈالنی شروع کر دیں کہ پانی اوپر آسکے اور وہ پیاس بجھا سکیں۔ہمارے ہاں سیاست دان انتخابات کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں لیکن قوم یا انقلاب کیلئے نہیں محض اپنی سیاسی و سماجی اور لاٹھی کی بقا کی خاطر کیونکہ صداقت عامہ یہی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔اب کا معلوم نہیں تاہم ہمارے زمانے میں جب انسان کچا پکا سا پڑھنا سیکھتا تھا تو وہ پیاسا کوّا اور لالچ بری بلا سے اخلاقی سبق نکالنے کی کوشش کرتا۔ کہانیاں تو ہیں ابھی معلوم نہیں اخلاقی سبق سیکھنے یا گُر سیکھنے کیلئے۔ ہماری سیاسی کہانی میں لالچ بری بلا اور پیاسا کوّا آج بھی چل رہے ہیں جس سے اخلاقی سبق مقتدر تو برابر اخذ کئے جا رہے مگر قوم ابھی سویا ہوا محل ہی بنی ہے۔ کل بھی قوم جس کو اپنا ہیرو چُنتی تھی وہ اس وقت تک بارآور نہ ہوتا جب تک مقتدرہ پیوند کاری نہ کرتی ، اور آج بھی وہی ہے۔ قوم کا کمال ہنوز اتنا ہے کہ ان کا چور پوِتر ہے اور مخالف کا چور اُچَکا۔ جو بھی کہہ لیں عموماً پیاسے کیلئے کنکر اور گھڑے کا انتخاب بڑوں ہی نے کرنا ہے الیکٹیبل نے بس چونچ سنبھال کر اور اس کا استعمال سوچ کر کرنا ہے، لالچ بری بلا کے بجائے ایک شفا ثابت ہو اس کیلئے بھی سیانوں کو بڑے ہی بتاتے ہیں کہ کس پانی کا سامنا کرنا ہے، کس آئینے سے بچنا ہے اور منہ کہاں کھولنا ہے اور کہاں نہیں کھولنا۔ سیاست میں ایک پرانی رسم ہے اغوا برائے اعلان جسکا پھر سے سرکٹ میں چرچا ہے ، مگر اس ’’الزام‘‘کو فقیر نہیں مانتا۔
چھوڑیئے آگے چلتے ہیں۔ آگے اب یہ کہ انتخابات کی آمد کا یقین اب سیاسی ڈیروں سے جھلکنے لگا ہے۔ محسوس یہ ہوتا انتخابات ہونے نہ ہونے کا مطلع ابر آلود تھا اب کافی حد تک بادل چھٹ گئے ہیں۔ ان دنوں ‘جنوبی پنجاب محاذ ‘ کا نیا ماڈل دلبروں کیلئے قابل غور بنا ہوا ہے جو استحکامِ پاکستان پارٹی کے نام سے سامنے آیا ہے ، اس کے استحکام اور عدم استحکام کا جائزہ ہر سطح پر لیا جارہا ہے۔ اگلے ہفتے استحکام والے اپنا پہلا سیاسی شو جھنگ میں کرنے جارہے ہیں، دیکھتے ہیں کیا فرماتے اور دکھاتے ہیں بہرحال انتخابات کی یقینی صورت حال کا احساس اس سے بھی ہو رہا ہے کہ ملتان سے جہاں عامر ڈوگر آزاد الیکشن کے تجربہ کے بعد مسلم لیگ نواز میں شمولیت کے درپے ہوں گے وہاں یوسف رضا گیلانی نے بھی ملتان کو زیادہ وقت دینا شروع کردیا، جانے کیوں لگتا ہے جاوید ہاشمی کو بھی آزاد الیکشن لڑنے کیلئے پر تولنا پڑیں گے لیگی ٹکٹ کے امکان کم ہیں، حافظ اقبال خاکوانی کیلئے بھی بڑے میاں صاحب کے دل کے دریچے ابھی تک تو نہیں کھل رہے۔ بہرحال جس طرح ملتان میں جاوید علی شاہ مطمئن ہیں اسی طرح رحیم یار خان سے مخدوم احمد محمود تین تین نشستوں پر پرسکون دکھائی دیتے ہیں، مخدوم شہاب الدین ٹبر کا نہیں معلوم تاہم خسرو پرویز ٹبر گومگو کیفیت میں ہے۔ بہاولپور اور گرد و نواح میں فاروق اعظم کی گیم مشکوک تاہم سمیع اللہ گیلانی کو گر عدم استحکام کا انعام ملتا ہے تو سرخرو ہوں گےورنہ دلی دور است۔ طارق بشیر چیمہ سانحہ بہاولپور یونیورسٹی سے بچ نکلے اور اپنی ذات کی حد تک مطمئن ہیں۔ ریاض حسین پیرزادہ کا سدا بہار اسٹائل اب بھی ہے۔اللہ جانے ڈی جی خان کا الیکشن دیکھنے کیلئے نون لیگ نے اپنے شہباز گل یعنی طلال چوہدری کو کیوں ذمہ داری سونپی ان کا تو اپنا سیاسی جینا و جیتنا محال ہے۔ راجن پور کے مزاری کا استحکام تحریک عدم استحکام میں کردار کے بعد اطمینان بخش ہو گیا، مظفرگڑھ میں پیپلزپارٹی کی محنت اور باسط بخاری کی سیاسی صحت زیادہ تسلی بخش نہیں، وہاڑی میں تہمینہ دولتانہ فارم میں ہے۔ چونکہ فقیر چند دنوں سے جنوبی پنجاب میں ہے چنانچہ متذکرہ لوگوں کی سیاسی بیٹھکیں سجی دیکھیں جو اس بات کی شاہد ہیں کہ سیاسی پنڈتوں کو انتخابات کی آمد کا یقین ہو چکا ، پھر میاں محمد نواز شریف کی آمد پر جنوبی پنجاب میں ہر ایم این اے و ایم پی اے کا امیدوار استقبالیہ جلسہ میں کم ازکم 2 سو بندے لانے کا پابند بنایا گیا ہے جس سے لگتا ہے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی ہلچل اس وقت تو جنوبی پنجاب ہی میں ہے سوائے خانیوال اور بھکر کے ۔
سیاسی افق پر ویسے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں بھی تلخ جملوں کی سیاسی تُو تُو میں میں شروع ہوچکی مگر گمان غالب ہے درجہ سوم اور چہارم ہی کے سیاستدان بلاول بھٹو پر تنقید کر کے سیاسی و میڈیا بیساکھیوں کا سہارا چاہیں گے، بس! صف اول کی قیادت کی ہلکی پھلکی موسیقی کے سبب بات زیادہ سنجیدہ نہیں ہو گی کیونکہ حکومت سازی اور مقتدر شناسی میں دونوں کو بعد از انتخابات ایک دوسرے کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ سندھ کا سیاسی منظرنامہ کم و بیش واضح ہے، نون لیگ سوائے کراچی کے اور کہیں زیادہ ہاتھ پاؤں مار کر وقت ضائع نہیں کرے گی۔ بڑے الیکٹیبل پیپلزپارٹی کے پاس ہیں تاہم جی ڈی اے بدین وغیرہ میں سیٹ نکالے گا تاہم ٹف ٹائم پانچ اضلاع میں دے گا۔ کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے ہم خیال ایڈجسٹمنٹ بنائیں گے اور کراچی میں مختلف سیٹوں پر نون لیگ مختلف پارٹیوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بنائے گی۔ لیکن مجموعی طور پر سندھ میں کلیدی فتح پیپلزپارٹی ہی کی ہے۔ کے پی کے میں گو تحریک انصاف پاکستان پارلیمینٹیرنز وجودپا چکی ، جو تحریک انصاف کو ڈینٹ بھی ڈالے گی تاہم آزاد امیدوار پاورفُل انداز میں ابھریں گے۔ اس دفعہ کے پی کے میں بلوچستان کی طرح خاندانوں کا راج سامنے آنے کی توقع ہے، وجہ سب جانتے ہیں۔ بلوچستان میں اس دفعہ پیپلزپارٹی کےہم خیالوں کو زیادہ کامیابی ملے نہ ملے لیکن زرداری ہم نواؤں کو زیادہ ملے گی!
وہ جو انتخابات کا ہونا مشکوک تھا ، اس شک و شبہ میں کافی کمی آئی ہے جس کا اظہار پاکستان الیکشن کمیشن کی باڈی لینگوئج سے بھی محسوس ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں کچھ اور عثمان ڈار طرز کےسیاست دان بھی بولیں گے بہرحال ان انتخابات میں تحریک انصاف کی امید کا بر آنا دکھائی نہیں دے رہا، مسلم لیگ نواز کی ہیں پانچوں گھی میں اگر نواز شریف تشریف لے آتے ہیں! ذہن نشیں رکھئے تحریک انصاف اینٹی نواز کی صورت میں بھی پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں دے گی جیسے پیپلز پارٹی میں سے اینٹی نواز ووٹ تحریک انصاف کو بھاری تعداد میں گیا تھا۔’’دوربین و خوردبین‘‘سے سینٹرل پنجاب نون لیگی دکھائی دے رہا اور اَپر پنجاب بھی۔ پھر بھی دو تہائی اکثریت کسی کی نہیں۔ قصہ مختصر انتخابی شروعات تو ہوتی رہتی ہیں کبھی جمہوری شروعات بھی ہوگی ؟
