نواز شریف کی آمد کے بعد بہت سی باتیں واضع ہو چکی ہیں اور عدالتوں کا رجحان بھی نظر آ رہا ہے الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کے یکساں مواقع ملنے ضروری ہیں ورنہ الیکشن کے انعقاد کا کوئی فائدہ نہیں ہے نواز شریف سے الیکشن کے حوالے سے جب صحافیوں نے پوچھا تو انھوں نے کوئی واضع جواب نہیں دیا ہے اب عدالت کے فصیلہ کے بھی نواز شریف کے دو اہم کیسوں کی سماعت کے لیے بحالی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیھٹتا ہے لیکن خفیہ طاقتیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ووٹ سے نمائندے منتخب ہو کر ایوانوں میں جاتے ہیں اور عوام کی عکاسی کرتے ہیں پاکستان میں ریاستی اداروں کی کمزوری کی وجہ سے بیرونی مداخلت ہمشیہ سے رہی ہے اور رہے گی کہنے کو تو ہم آزاد ہیں لیکن ہماری لگامیں ابھی بھی کسی اور کے ہاتھ ہیں حالات کس کروٹ بدلتے ہیں سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے حال ہی میں کئی کالموں میں جو باتیں کی ہیں ان میں کوئی شک نہیں کہ تمام سیاسی کھلاڑیوں کو الیکشن میں حصہ لینا چاہیے اور اختلافات اور انتقامی کارروائیوں سے دور رہنا چاہیے پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو تو کہہ چکے کہ ایک شخص کے لیے الیکشن کو آگے لیکر جایا جا رہا ہے اور حلقہ بندیاں آڑے آ رہی ہیں حالانکہ سابق حکومت کے پاس حلقہ بندیوں کے لیے وافر وقت موجود تھا لیکن جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے پی ٹی آئی نے کافی عرصہ قبل مردم شماری کروا دی تھی الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست شائع کردی ہیں۔الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں کی رپورٹ بمعہ فہرست فارم 5 عوام کی آگاہی کیلئے شائع کیا ہے، ابتدائی حلقہ بندیوں کی اشاعت 30 دن 26 اکتوبر تک جاری رہی ہےالیکشن کمیشن کے مطابق ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات دائر کئے جاچکے ہیں ، ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات متعلقہ حلقہ کا ووٹر کر سکتا ہے، یہ درخواست سیکرٹری الیکشن کمیشن کے نام دینی ہوتی ہے، درخواست 27 اکتوبر تک الیکشن کمیشن میں جمع کروائی جاسکتی تھی مؤقف سننے کے بعد 26 نومبر 2023ء تک ان اعتراضات پر فیصلے کئے جانے ہیں ۔ قومی اسمبلی کا حلقہ اوسطاً سوا 9 لاکھ ووٹرز پرمشتمل ہے، وفاقی دار الحکومت میں قومی اسمبلی کا حلقہ اوسطاً 7 لاکھ 87 ہزارسے زائد ووٹرز پر مشتمل ہے، خیبر پختوانخوا میں صوبائی اسمبلی کا حلقہ اوسطاً ساڑھے3 لاکھ ووٹرز پر مشتمل ہے۔الیکشن پنجاب اسمبلی کا حلقہ اوسطاً4لاکھ 30ہزار ووٹرز پر مشتمل ہے، سندھ کا صوبائی حلقہ اوسطاً4 لاکھ 30 ہزار ووٹرز پر مشتمل ہے، بلوچستان صوبائی اسمبلی کا حلقہ اوسطاً 2 لاکھ 92 ہزارووٹرز پر مشتمل ہے۔حلقہ بندیوں کی ابتدائی اشاعت کے مطابق قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 266 ہوگئی ہیں۔پنجاب اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 297 ہوگی۔سندھ اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 130 ہوگی۔کے پی کے اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 115 ہوگی۔بلوچستان اسمبلی کی جنرل نشستیں 51 ہونگی۔پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141، سندھ میں 51نشستیں ہونگی۔کے پی کے میں 45 جبکہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16نشستیں ہونگی۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی 3 سیٹیں ہونگی۔ الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں میں سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں ردوبدل کیا گیا ہے اس طرح خیرپور، سانگھڑ اور ٹھٹھہ کی ایک ایک نشست کم ہوگئی ہے۔خیرپور کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 7 سے کم ہوکر 6 ہوگئی ہیں،۔سانگھڑ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 6 سے کم ہوکر 5 ہوگئیں ہیں ٹھٹھہ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 3 سے کم ہوکر 2 رہ گئیں ہیں ،ملیر، کراچی ایسٹ اور کراچی سینٹرل کی ایک ایک نشست میں اضافہ ہوگیا ہے،ملیر کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 5 سے بڑھ کر 6 ہو گئیں ہیں،کراچی ایسٹ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 8 سے بڑھ کر 9 ہوگئیں۔کراچی سینٹرل کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 8 سے بڑھ کر 9 ہوگئیں۔حلقہ بندیوں میں اسلام آباد کی تین قومی اسمبلی کی نشستیں برقرار رکھی گئیں ہیں۔چترال اپر اور چترال لوئر کو ملا کر ایک قومی اسمبلی کا حلقہ رکھا گیا ہے۔کوہستان اپر، لوئر اور کولائی پلاش کو ملا کر تین علاقوں میں ایک نشست رکھی گئی ہے۔مانسہرہ اور ترغر کو ملا کر ایک نشست رکھی گئی۔ہنگو اور اورکزئی کو ملا کر ایک نشست رکھی گئی ہے۔ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کو ملا کر تین نشستیں رکھی گئی ہیں۔جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے حلقوں کو ملا کر ایک نشست کر دی گئی ہے۔گوجرانوالہ اور حافظ آباد کو ملا کر چھ نشستیں رکھی گئی ہیں۔جہلم میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں برقرار رکھی گئیں ہیں۔فیصل آباد میں قومی اسمبلی کی دس نشستیں برقرار ہیں۔لاہور کی چودہ نشستیں بھی برقرار رکھی گئی ہیں۔ملتان اور رحیم یار خان کی چھ چھ نشستیں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ضلع راولپنڈی اور مری کو ملا کر 7 نشستیں رکھی گئی ہیں، چکوال، تلہ گنگ کو ملا کر دو نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں،مظفر گڑھ کی چار، بہاولپور کی 5 نشستیں ہی ہیں،لودھراں کی دو نشستیں اور،جیکب آباد، کشمور اور شکارپور کے اضلاع کو ملا کر چار قومی اسمبلی کی نشستیں رکھی گئی ہیں،کراچی میں قومی اسمبلی کی 22 نشستیں ہو گئیں۔ہیں کراچی میں پہلے 21 قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں،کراچی اضلاع کی صوبائی اسمبلی کی کل 47 نشستیں ہیں، بلوچستان کی قومی اسمبلی کی 16نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں،خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کے دس اضلاع ایک قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے کیلئے متعلقہ آبادی حاصل نہ کر سکے۔خیبرپختونخوا کے تیرہ اضلاع کی حلقہ بندی توڑ کر ایک حلقہ بنایا گیا ہے، مری کی ایک قومی اسمبلی کی نشست کیلئے راولپنڈی سے آبادی لی گئی ہے۔تلہ گنگ اور چکوال کے اضلاع کو ملا کر ایک قومی اسمبلی کی نشست بنائی گئی۔ضلع حافظ آباد کی ساڑھے تین لاکھ آبادی کو گوجرانوالہ کی قومی اسمبلی کی ایک نشست میں ایڈجسٹ کیا گیا، ہےضلع قصور کی آبادی زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے چار نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں میں سندھ کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ابتدائی حلقہ بندیوں میں سانگھڑ کی قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوگئی ہے،سانگھڑ کی قومی اسمبلی کی نشستیں 3 سے کم ہوکر 2 رہ گئیں ہیں۔ابتدائی حلقہ بندیوں میں کراچی ساؤتھ کی قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ ہوگیا۔ہےکراچی ساؤتھ کی قومی اسمبلی کی نشستیں 2 سے بڑھ کر 3 ہو گئیں۔ہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں میں خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع قومی اسمبلی کی 6 نشستوں سے محروم ہوگئے۔ضم شدہ اضلاع کی قومی اسمبلی کی نشستیں 10 سے 4 رہ گئیں۔حلقہ بندیوں کی فہرست کے مطابق باجوڑ سے دو حلقے تھے، این اے 40 اور این اے 41، اب نیا حلقہ این اے 8 ہوگا۔ ضلع خیبر سے این اے 43 اور 44 حلقہ تھے جو اب ایک حلقہ کم کرکے این اے 27 ہوگیا ہے، کرم سے بھی ایک حلقہ کم کردیا گیا ہے این اے 45 اور 46 کے بعد کرم کا نیا حلقہ این اے 27 ہوگا، اورکرزئی کا حلقہ این اے 47 ختم کردیا گیا، ضلع کرم کو ہنگو کے حلقہ این اے 36 کیساتھ شامل کردیا گیا ہے۔اسی طرح جنوبی وزیرستان کا ایک حلقہ بھی کردیا گیا ہے، این اے 49 اور این اے 50 کے بعد اب این اے 42 ساوتھ وزیرستان کا نیا حلقہ ہوگا۔نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کے پرانے حلقوں کی ترتیب بھی تبدیل ہوگئی ہے، خیبرپختونخوا میں این اے 8 جو پہلے ملاکنڈ کا حلقہ ہوا کرتا تھا،اب این اے 8 باجوڑ پر مشتمل ہے، این اے 9 پر ملاکنڈ شامل ہوگیا ہے، اسی طرح نوشہرہ کے حلقہ این اے 26 اور 27 سے تبدیل ہوکر اب این اے 33 اور 34 حلقہ ہوگئے ہیں، کوہاٹ این اے 32 سے این اے 35، ہنگو این اے 33 سے این اے 36، کرم این اے 46 اور این اے 45سے این اے 37، کرک این اے 34 سے این اے 38 ہوگیا ہے۔، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 115 نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں لیکن پشاور سے ایک نشست کم کی گئی ہے جس سے تعداد 13 ہوگئی ہے، ہنگو کو بھی ایک نشست سے محروم کردیا گیا ہے۔2018ء کے انتخابات میں چترال کی ایک نشست کم کردی گئی تھی لیکن اب چترال کی ایک نشست زیادہ کردی گئی ہے، اسی طرح شانگلہ کی بھی ایک نشست بڑھا کر تعداد 3 کردی گئی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں سے کیا سیاسی پارٹیوں پر اثرات مرتب ہوں گے اور نئی حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے تھے ضروری بات تو یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کی تاریخ کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے ابھی تک تاریخ نہیں دی اور عوام بھی ابھی تک اس شک میں مبتلا ہیں کہ الیکشن ہونے ہیں یا نہیں ہونے ہیں ایک بات تو طے نظر آ رہی ہے کہ جب بھی الیکشن ہوئے عوام کو آزدانہ حق رائے دہی کا حق ملنا چائیے اور ملک کے تمام مسائل کا حل بھی الیکشن کے سوا کچھ نہیں ورنہ پاکستان دلدل میں پھنس جائے گا عدالتوں میں بھی 90 روز کے اندر الیکشن کے انعقاد کا درخواستں موجود ہیں صدر پاکستان اس معاملہ میں بھی تک آگے نہیں آ رہے ہیں اب دیکھیں پاکستان میں کیا ہونے جا رہا ہے
