kashif Ishfaq

معاشی بحالی کے اقدامات ثمرآور ثابت ہونے لگے

ملک کی معاشی صورتحال میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بتدریج بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جو کاروباری طبقے اور عام شہریوں کیلئے خوش آئند بات ہے۔ تاہم یہ صورتحال اس بات کی بھی غماضی کرتی ہے کہ اگر ماضی کی منتخب حکومتیں ان خطوط پر اپنے ادوار میں ہی اقدامات شروع کر دیتیں تو شاید پاکستان کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا جن سے ہم گزشتہ چند ماہ میں گزرے ہیں۔ پاکستان میں جاری معاشی بحران کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ہے۔ ڈالر کی قیمت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ معمول بن چکا تھا جس کے باعث بیرون ملک سے ضروری اشیائے خورونوش، جان بچانے والی ادویات، انڈسٹری کیلئے درکار ضروری خام مال اور کیمیکلز کی درآمدات بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی تھیں۔ تاہم سیکورٹی اداروں کی جانب سے غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی تجارت اورا سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈائون کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں نمایاں بہتری آئی ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تقریباًپچاس روپے کی کمی ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستمبر کے مہینے میں پاکستانی روپے کو دنیا کی سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والی کرنسی قرار دیا گیا۔
وزارت خزانہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق غیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرنیوالے ڈیلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف جاری انتظامی اقدامات کی وجہ سے شرح مبادلہ مستحکم ہو رہی ہے جبکہ روپے کی قدر میں بہتری کی وجہ سے حکومت کو درآمدات پر خرچ ہونیوالے اضافی زرمبادلہ کی بچت کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں بھی کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک کی جانب سے فنڈز کی فراہمی سمیت مثبت اشاریوں نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور صنعتی ترقی کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے بعد پاکستان کیلئے اوپن مارکیٹ ریٹ کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہو گیا تھا کیونکہ آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے صورتحال کو بہتر بنانے میں آرمی چیف کی مداخلت اور سکیورٹی اداروں کے کریک ڈاؤن نے اہم کر دار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی مصنوعی طلب میں نمایاں کمی آئی ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کے حوالے سے دوسری اچھی خبر یہ ہے کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اپنے ہدف سے زیادہ ریونیو جمع کیا ہے۔ ایف بی آر کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ادارے نے گزشتہ تین ماہ میں 1978 ارب روپے کے مقررہ ہدف کے مقابلے 2041 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس دوران 37 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کئے گئے جو ستمبر 2022 میں جاری کیے گئے 18 ارب روپے کے ریفنڈز کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف انڈسٹری کو ریفنڈز کے اجرا سے سرمائے کی قلت کے حوالے سے درپیش مسائل میں کمی آنے کا امکان ہے وہیں عام شہریوں کو بھی ٹیکس ہدف پورا کرنےکیلئے لگائے جانے والے اضافی ٹیکسز کے نفاذ سے ریلیف مل گیا ہے۔ اگرچہ ایف بی آر کی طرف سے اضافی ٹیکس وصولی کے ذرائع نہیں بتائے گئے لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ جس طرح غیر دستاویزی معیشت کے خلاف اقدامات ہو رہے ہیں اس کی وجہ سے بھی ٹیکس کی وصولی بڑھ گئی ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ستمبر 2023 کے دوران درآمدات میں شدید کمی کی وجہ سے اس مد میں ہونے والی ٹیکس وصولی میں کمی کے باعث وصول شدہ ٹیکس کی مالیت 254 ارب روپے تھی جبکہ اگست 2023 میں درآمدات پر 299 ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا تھا۔
اس طرح معیشت میں بہتری کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ نگران حکومت نے مالی مشکلات اور بدانتظامی کا شکار پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کی نجکاری سے متعلق طریقہ کار اور وقت کے تعین پر اتفاق کر لیا ہے۔ پی آئی اے کا شمار ملک کے ان قومی اداروں میں ہوتا ہے جو سالہا سال سے خسارے کا شکار ہیں اور ماضی میں بھی اس کی نج کاری کیلئے کوششیں کی گئیں لیکن ادارے کے ملازمین کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اس معاملے پر اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب اس کی نجکاری نہ کی جا سکی جس کی وجہ سے اس کے خسارے میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس ادارے کی نجکاری سے جہاں خسارے کا شکار دیگر قومی اداروں کی نجکاری کی راہ ہموار ہو گی وہیں پی آئی اے کی بحالی کے ساتھ ساتھ اس ائیرلائن سے سفر کرنے والے مسافروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق سہولیات کی فراہمی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔ اس حوالے سے ہمسایہ ملک بھارت کی قومی ایئر لائن ایئر انڈیا کی نجکاری کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ انڈیا کی حکومت نے جنوری 2022 میں ائیر انڈیا کو اس کے ذیلی ادارے ائیر انڈیا ایکسپریس کے ساتھ ٹاٹا گروپ کو فروخت کر دیا تھا۔ ایک سال کے مختصر عرصے میں اس ایئرلائن نے 470 نئے طیاروں کی خریداری کا سب سے بڑا آرڈر دے کر ائیرلائن انڈسٹری میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہترین مثال ہے کہ نجکاری مختصر وقت میں کیسے مثبت نتائج دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں