مالی سال 2024ء کے دوران 25ارب ڈالر کے قرض واجب الادا ہوںگے ۔ان میں 15ارب ڈالر کے قلیل مدتی اور 7ارب ڈالر کے طویل مدتی قرض شامل ہیں۔قلیل مدتی قرضوں میں چار ارب ڈالر کے چینی،تین ارب ڈالر کے سعودی اور دو ارب ڈالر کے متحدہ ارب امارات کے سیف ڈپازٹس شامل ہیں۔قرضوں کی ادائیگی کا یہی معمول مزید دو سال تک برقرار رہے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 3ارب ڈالر کا معاہدہ ہو گیا ہے اور سعودی عرب کی جانب سے 2ارب ڈالر کے ڈیپازٹس بھی موصول ہوگئے ہیں ۔ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 11.67ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔قرض لے کر حکومت چلانا تو کوئی بات نہیں، ضرورت ایسے اقدامات کی ہے کہ اسکی نوبت ہی نہ آئے۔ قومی معیشت کی جامع حکمت عملی پر کام کیا جائے جس میں برآمدات بڑھانے،درآمدات کم کرنے،سمندر پارپاکستانیوں کی ترسیلات بڑھانے اور بیرون ملک سے زیادہ سرمایہ کاری لانے کی منصوبہ بندی شامل ہو۔اس کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہونگے، جن میں معیشت کو دستاویزی بنانے کے اقدامات کی بنیادی اہمیت ہے۔معدنی وسائل جوہمارے ملک کا ایک بڑا اثاثہ ہیں مگر آج تک ہم ان سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکے نہ ہی جغرافیائی اور بحری وسائل سے،ان شعبوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔اس طرح زرعی شعبہ ،جس پر توجہ نہ دینے کا نتیجہ یہ ہے کے سالانہ دس ارب ڈالر صرف خوراک کی درآمدات پر خرچ ہوتے ہیں۔اگر زراعت پر توجہ دی جائے تو خوراک کے درآمدی اخراجات میں خاطر خواہ کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔گزشتہ دنوں گرین پاکستان انیشی ایٹوکے تحت غذائی تخفظ پرمنعقدسیمینار میںاس بات اظہار کیا گیا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔ اگر ہم جدیدٹیکنالوجی ، صحت مند بیج،سازگار ماحول، اچھی ادویات کے ذریعے زراعت کو ترقی دیں تو اس سے نہ صرف40-30ارب ڈالرسالانہ کی سرمایہ کاری آئے گی ۔بلکہ 40-30لاکھ افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ ملک بھی زرعی شعبے میں ترقی کرے گا ۔ زراعت میںخودکفالت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ درآمدات پر بوجھ بھی کم کیا جاسکے گا۔
گزشتہ مالی سال کے دوران ملک کی مجموعی برآمدات پونے بتیس ارب ڈالر کے قریب تھیں مگر ان میں سے نو علاقائی ممالک(چین،ایران،افغانستان،بنگلادیش،سری لنکا،نیپال،بھارت،بھوٹان،مالدیپ)کو فروخت کی گئیں مصنوعات کا مالیاتی حجم صرف ساڑھے چار ارب ڈالر کے برابر تھا،جبکہ ان ممالک سے پاکستان کی مجموعی درآمدات آٹھ ارب ڈالر کے قریب تھیں۔ایک اندازے کے مطابق علاقائی ممالک کے ساتھ پاکستانی تجارت پچاس ارب ڈالر تک بڑھائی جا سکتی ہے۔مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب علاقائی ممالک کے ساتھ تجارتی اور عوامی روابط مضبوط ہوں اور تجارت کیلئے سہولتیں پیدا کی جائیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ملک میں سرمایہ کاری لانے کیلئے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے قیام کا جو سرکاری نو ٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلٹیشن کونسل کے نام سے بنائی گئی اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع،زراعت،معدنیات،آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں گلف کو آپریشن کونسل یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔یہ معاشی پلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔معاشی بحالی کے اقدامات یوں تو ہر حکومت کسی نہ کسی طرح کرتی آئی ہے،مگر اس فریم ورک کو ماضی سے جو چیز ممتاز کرتی ہے ،وہ ہے اس کیلئے فوج کی حمایت اور سرمایہ کاری کی کوششوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کی اپیکس کمیٹی میں پاک فوج کے سربراہ کی شمولیت ، جس سے امید کی جاتی ہے کہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے قائم کی گئی کونسل کی افادیت اور ساکھ میں اضافہ ہوگااور طویل مدتی معاشی حکمت عملی کااعتبار پروان چڑھے گا۔
واضح الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ معاشی منصوبہ بندی کو سیاسی اور حکومتی نہیں ،ریاستی معاملہ قرار دینا ہوگا۔اور اس کیلئے پاک فوج کی حمایت،نگرانی اور سرپرستی ناگزیرمعلوم ہوتی ہے۔اس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی ہوگی اور پائیدار منصوبہ بندی کا اعتماد قائم ہوگا۔چنانچہ موجودہ حالات میں یہ ایک بہترین پیشرفت ہے جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر چڑھانے میں مدد ملے گی۔پاکستان میں وہ لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیںجن کی آمدنی کم ہے جبکہ زیادہ اثاثے رکھنے والے ٹیکس بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس لئے معاشی نا ہمواری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں چاہے سول ہوں یا غیر سول ،عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے اور تعلیم،صحت،ہائوسنگ اورروزگار جیسے فلاحی منصوبوں سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔دیکھنے میں آیاہے کہ جب حکومت ٹیکس وصول نہیں کرپاتی تو اخراجات پورے کرنے کیلئے قرض لیتی ہے اور وصول ہونے والا تھوڑا بہت ٹیکس اس قرضے کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا ہے۔اس کے بعد مزید قرض اور مزید ادائیگی۔
یہ چکر گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے موجودہ مالی سال کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی شرح ٹیکس کی وصولی کا چھیاسٹھ فیصد ہے۔اعداد و شمار کے مطابق غریب عوام اڑتالیس فیصد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ دولت مند افراد صرف اٹھارہ فیصد۔اس کی وجہ سے دولت کی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔معاشرے میں موجودہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی ذمہ داری بھی زیادہ تراسی نا ہمواری پر عائد ہوتی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے ان میں تبدیلی کا تقاضاکرتےرہتےہیںلیکن وہ اس کیلئےزیادہ دبائونہیں ڈالتے۔حالانکہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ دولت مند اپنا دامن بچا جاتے ہیں جبکہ غریب آدمی پس رہا ہے۔ان اداروں کی دلچسپی عوام کی فلاح نہیں بلکہ اپنی رقوم اور سود کی وصولی میں ہوتی ہے۔سول اداروں کے نقائص اور کمزور جمہوریت کی وجہ سے گزرنے والےبرسوں میں ہمارا ٹیکس کا نظام زیادہ سے زیادہ خرابیوں سے دوچار ہو رہا ہے۔ٹیکس کا نظام جتنا مرضی اچھا بنا لیں ،اگر اسے نافذ کرنے کے سخت قوانین پر عمل درآمد نہ ہوتوہر کاوش اکارت ہو جاتی ہے۔کوئی بھی اپنی مرضی سے ٹیکس ادا کرنا پسند نہیں کرتا ۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی وصولی کو یقینی بنائے اور اس مقصد کیلئے غیر لچک دار نظام وضع کرے۔
