آج پوری دنیا،بالخصوص پاکستان اور ہندوستان میں ’’یوم سرسیدؒ‘‘ سادگی و عاجزی کے ساتھ منایا جارہا ہے۔درویش کی تمنا ہے کہ کم از کم پاکستان میں 17اکتوبر کا یہ دن روایتی جوش و جذبے سے منایا جائے، کئی حوالوں سے سرسید ؒکی ماڈریٹ،لبرل اور سائنٹیفک اپروچ اتنی جاندار اور وقیع ہے کہ آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوتے ہوئے اس عظیم مصلح و مجتہد کی و ممنون رہیں گی۔ اقوام عالم، بالخصوص مسلمانوں اور دیگر اہل کتاب کے درمیان دوئی مٹانے میں بھی سر سید کا کلیدی کردارہے۔1857ء کی ناکام بغاوت کے بعد پسماندہ و درماندہ مسلم ہجوم کو ازسرنومنظم کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی ایک پڑھی لکھی، باشعور و باوقار قوم بنا دینے کا قابل فخر کارنامہ برصغیر کی مسلم تاریخ کبھی نہیں بھلا سکے گی۔یہاں ہم بابائے اردو مولوی عبدالحقؒ کی زبان میں اپنا مدعا آگے بڑھاتے ہیں۔’’سرسیدؒ نے اصلاح کا بیڑا اس وقت اٹھایا،جب قوم کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور مسلمانوں پر افسردگی و مردنی چھائی ہوئی تھی۔وہ طرح طرح کے توہمات، تعصبات اور اختلافات میں مبتلا تھے۔سرسیدؒ نے دُکھتے ہوئے پھوڑے اس طرح چھیڑے کہ لوگ بلبلا اٹھے اور آمادئہ پیکار ہوگئے ۔قومی زندگی کا کوئی شعبہ ان کی نظر سے نہ بچا۔ایک ایک پر تنقیدی نظر ڈالی، کھرے کھوٹےکو پرکھااور بلاخوفِ لَومَتِ لائم بڑی اخلاقی جرات اوردلیری سے وہ بات کہہ اور لکھ دی ،جسے وہ سچ سمجھتے تھے۔اس پر بڑا شوروغل مچا۔اخباروں میں لے دے ہوئی ،خاص کر’’اودھ پنچ‘‘ میں ان کے خیالات مسخ کرکے بڑی بھیانک صورت میں پیش کئے ، ان کی ہنسی اڑائی گئی۔کافر، ملحد، لامذہب، دجال کرسٹان کے خطابات دیئے گئے۔بعض اوقات وہ ایسےبے جا اعتراضات اور تہمتوں کا جواب بھی لکھتے ، ان جوابوں میں ان کی انشا پردازی اور ظرافت کا رنگ بہت دلآویزہوتا،مثلاً مولوی علی بخش سب آرڈینیٹ جج گورکھپور اور مولوی امداد علی ڈپٹی کلکٹرکانپور سرسیدؒ کے شدید مخالفوں میں سے تھے،ان بزرگوں نے سرسیدؒ کی تحریروں اور خیالات کے رد میں رسالے لکھے، اخبارات جاری کرائے اور عجیب عجیب الزامات و بہتان لگائے۔مولوی علی بخش نے اسی نوعیت کی ایک کتاب’’تائیدالاسلام‘‘ لکھی،جس کے جواب میں سرسیدؒ نے ایک مضمون’’دافع البہتان‘‘ لکھا،جس کے آخری الفاظ یوں تھے:’’جو کوئی میری اس تحریر کو دیکھے گا،تعجب کرے گا کہ جناب سید الحاج نے کیوں ایسے سخت اور محض بہتان مجھ پر کئے ہیں۔بظاہر اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جناب سید الحاج نے جب یہ رسالہ لکھا،قریب اسی زمانے میں وہ حج کو تشریف لے جانے والے تھے۔انہوں نے خیال کیا ہوگا کہ حج کو تو جاتے ہی ہیں، جتنے گناہ کرنے ہیں، وہ سب کرلیں ۔حج کے بعد تو وہ سب پاک ہی ہوجائیں گے۔جیسا کہ بعض لوگ جب مسہل لینا چاہتے ہیں تو خوب بدپرہیزی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مسہل سے سب کھایا پیا نکل جائے گا، مگر جناب سید الحاج کو معلوم ہونا چاہیے کہ حج میں سب گناہ آپ کے معاف ہوگئے ہوں گے اور آپ شبلیؒ و جنیدؒ کے مرتبے پر پہنچ گئے ہوں گے، مگرحقوق العباد نہ حج سے بخشےجاتے ہیں اور نہ کسی بشارت سے۔آپ نے جو اتہام مجھ پر عائد کئے ہیں ،جب تک مَیںہی نہ معاف کردوں، معاف نہیں ہو سکتے۔ پس مقتضائے ایمان داری یہ ہے کہ حج درِ احمد کا احرام باندھیے اور گناہوں کی معافی چاہیے، ورنہ روزِ جزااپنے کرتوتوں کا مزا آپ کو معلوم ہو جائے گا‘‘۔سرسیدؒ جب ولایت سے واپس آئے اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا تو مولوی امداد علی نے انہیں اپنا ایک رسالہ بھیجا،جس میں مفتی سعد اللہ خان کے ’’فتاویٰ تکفیر جناب سید احمد خان‘‘ کی دھمکی تھی اور لکھا تھا کہ یہ فتویٰ راقم کے پاس موجود ہے۔سرسیدؒ لکھتے ہیں کہ ’’پہلے تو ہم گھبرا گئے کہ یہ مفتی سعداللہ خان صاحب کون ہیں؟ پھر خیال ہوا کہ یہ وہی ہیں،جن کو ہم نے دلی میں دیکھا تھا۔یہ وہی مفتی سعداللہ صاحب ہیں،جنہوں نے لکھنوء میں ایک نیک بخت مسلمان آلِ رسولؐ اولادِ علیؓ کے کفر اور قتل کا فتویٰ دے کر عشرئہ محرم میں ان کا سر ہنومان گڑھی سے نیزے پر چڑھا کر لکھنوء لانا چاہا تھا تو ہمارا دل ٹھنڈا ہوگیا اور ہم سمجھے کہ آلِ رسولؐ کے قتل و کفرکا فتویٰ دینا ان کا قدیمی پیشہ ہے۔‘‘زندہ دلی سرسیدؒ کی فطرت میں تھی، اگرچہ عمرکے ساتھ ساتھ کام کی کثرت روز بروز بڑھتی جارہی تھی اور نت نئے حالات و واقعات ان پرہجوم کرکے ٹوٹ پڑے تھے، لیکن ان کی زندہ دلی میں فرق نہ آیا۔وہ اپنے ہم عصر بے تکلف دوستوں سے بڑی دل لگی اورشوخی کی باتیں کرتے، بلکہ چھوٹوں سے بھی نہ چوکتے۔یہ زندہ دلی ان کے کٹھن کام میں سہارے کاکام دیتی… مولانا حالیؒ لکھتے ہیں کہ سرسیدؒ کا ایک آرٹیکل تہذیب الاخلاق میں شائع ہوا کہ اجماع جیسا کہ اہل سنت سمجھتے ہیں ،حجتِ شرعی نہیں ہے۔اہل تشیع میں سے ایک صاحب جو بنارس میں ملازم تھے، اس آرٹیکل کو پڑھ کر خوشی خوشی ان سے ملنے آئے۔پہلے ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔سرسیدؒ سے اس آرٹیکل کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے:’’کیوں جناب جب آپ کے نزدیک اجماع حجت نہیں تو پھر خلیفہ ء اول کی خلافت کیونکر ثابت ہوگی‘‘؟سرسیدؒ نے کہا کہ ’’حضرت نہیں ہوگی تو ان کی نہیں ہوگی ، میرا کیا بگڑے گا‘‘۔وہ یہ سن کر اور بھی خوش ہوئے اور سمجھے کہ پانی مرتا ہے۔کہنے لگے:’’کیوں جناب! اس اختلاف کے وقت جب کچھ لوگ خلیفہ ء اول کا ہونا چاہتے تھے اور کچھ جناب امیر ؑ کا، اگر آپ اس وقت ہوتے تو کس کے لئے کوشش کرتے؟‘‘سرسیدؒ نے کہا:’’حضرت مجھے کیا غرض تھی کہ کسی کیلئےکوشش کرتا۔مجھ سے تو جہاں تک ہوسکتا ، اپنی ہی خلافت کا ڈول ڈالتا اور سوبسو کامیاب ہوتا‘‘۔یہ سن کر ان کا جی چھوٹ گیا اور جوتیاں پہن کر گھر کا راستہ لیا۔
سرسیدؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست نے نقل کی کہ ضلع سہارن پور میں ہمارے حال پر بحث ہورہی تھی۔ایک صاحب نے کہا کہ ’’ہے تو کرسٹن، مگر ہماری قوم کی بھلائی اگر ہوگی تو اس کرسٹن سے ہوگی‘‘۔یہ نقل سن کر ہم بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ’’اگر درحقیقت ہم سے ایسے ہوا تو اس کرسٹانی خطاب پر ہزار مسلمانی نثار۔ خدا کرے کہ یہ لفظ کرسٹن میرے لئے عزتِ قومی کا باعث ہو‘‘۔گورنمنٹ آف انڈیا نے انہیں لیجسلیٹو کونسل کا ممبر منتخب کیا تھا۔کونسل میں تمام تقاریر انگریزی میں ہوتی تھیں۔سرسیدؒ اپنی تقریر اردو میں لکھتے اور انگریزی میں ترجمہ کرواتے، پھر اس انگریزی کو اردو حروف میں لکھتے۔یوں کونسل میں جا کر تقریر کرتے۔ یہ تقاریر اتنے معرکے کی ہوتیں کہ ایک بار کونسل کا اجلاس ختم ہونے کے بعد لارڈ لٹن ان کے پیچھے پیچھے چلے آئے اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہاکہ ’’میں نے ایسی فاضلانہ تقریرکبھی نہیں سنی‘‘۔اس براعظم کے مسلمانوں میں بڑے بڑے مجاہد، ذی علم و فضل، پاک نفس بزرگ اور مصلح گزرے ہیں، لیکن ان کا دائرئہ عمل ایک یا دو مہمات تک محدود تھا، مگر سرسیدؒ کا میدانِ عمل قومی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھا۔ ایسا جامع الصفات اور ہمہ تن ایثار عظیم مصلح ہمیں،نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد نصیب ہوا،جس نے ایک مایوس و درماندہ قوم میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی‘‘۔اعترافِ عظمت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ مہاتما گاندھی نے سرسیدؒ کو تعلیم کا پیغمبر…The Prophet of education… قرار دیا اور جناح نے ان کے مسکن علمی کو اپنا اسلحہ خانہ، علامہ اقبالؒ کے یہ الفاظ کس قدر جامع ہیں کہ ’’سرسیدؒ کی عظمت کا اصل راز اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ وہ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے، جنہوں نے اسلام کی تعبیر و تشکیل جدید کی ضرورت کو نہ صرف یہ کہ محسوس کیا، بلکہ اس کیلئے بھرپور جدوجہد بھی کی‘‘۔پنڈت نہرو نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا:’’سرسیدؒعظیم مصلح تھے،جنہوں نے جدید شعوری تعبیر کے ذریعے مذہب اور ماڈرن سائنٹیفک خیالات میں مضبوط رشتہ استوار کرنا چاہا۔
