نعیم مسعود

لیڈران کا آئینی تصادم !

یہ بات پہلے بھی سپردِ قلم کر چکا ، بات نئی نہ سہی اہم ضرور یے۔ جس زاویہ سے بھی دیکھیں، اور ملک چاہے امریکہ ہو بھارت ۔ کسی ملائشیا کو زیر بحث لائیں یا ترکی کو۔ ہر جگہ پر آئین :
(1) بعض اوقات کئی معاملات میں خاموش ہو جاتا ہے یا (2) کچھ میں الٹا سوال چھوڑتا دکھائی دیتا ہے۔ (3) ایسا بھی ہے کہ کسی انوکھے اور نئے معاملہ میں الجھن سلجھنے کے بجائے آئینی دفعہ دیگر دفعات کے متصادم جا کھڑی ہوتی ہیں. (4) کبھی کبھی آئین وہ جواب دیتا ہے جو طبعی طور ماننا ممکن نہیں ہوتا یا سیاست و ریاست کیلئے مشترکہ طور سے قابل قبول نہیں ہوا کرتا۔ (5) ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آئینی شق بظاہر ریاستی اداروں کا قلعہ قمع کرتی دکھائی دیتی ہے!

ان آئینی تجربات اور پارلیمانی و سیاسی مشاہدات میں اگر ریاستیں ڈیڈ لاک کا شکار ہو جائیں تو قیادت کو کریز سے باہر نکل کر کھیلنا پڑتا ہے لیکن اخلاقیات و روایات سے باہر نکل کر کھیلنا کسی اسٹیٹس مین کو اجازت نہیں دیتا بےشک اقتدار رہے یا جائے ، مسئلہ حل ہو یا مزید پیچیدہ ہوتا چلا جائے۔ ہر صورت میں متذکرہ صورت حال میں اصلی قیادت کسی مقبولیت کے زعم یا اقتدار کے لالچ میں آئے بغیر ژرف نگاہی کو فروغ دیتی ہے۔ پندرہ سولہ ماہ قبل جب آئینی و سیاسی اور معاشی بحرانوں آ دستک دی تھی یکایک عدالتی بحران بھی دہلیز پر آ کھڑا ہوا تھا۔ داخلی کشمکش تو تھی ہی لیکن آئی ایم ایف نے جو تگنی کا ناچ نچایا اسے بھولنا ممکن نہیں۔ لیکن یہاں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والوں نے 18 ویں ترمیم کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ سنجیدہ سیاست دان اور اسٹیٹس مین مکالمہ سے نہیں بھاگتا لیکن غیر سیاسی و غیر جمہوری رویہ کو اقتدار کے پیچھے بھاگنے سے فرصت نہیں ہوتی۔ اس کیلئے ایک طرف اُس کا گھر ایک طرف مے کدہ والا باب کھل جاتا ہے۔

1988 میں مہاتیر محمد کو سپریم کورٹ کا سامنا تھا، آئینی و سیاسی الجھنیں سلجھنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ یہاں قیادت نے فیصلہ کن رخ لیا اور ایگزیکٹو کو بچانا محترم سمجھا جسے بحران کہے بغیر چارہ ہے اور نہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے ایک اسٹیٹس مین کی تعریف کئے بغیر چارہ ہے ! بہرحال بعدازاں آئینی ترامیم آئیں، ججز سبکدوش کئے گئے، مہاتیر محمد کا پاپولر موقف تھا کہ عدالت اعظمٰی تشریح تو کر سکتی ہے مگر پارلیمنٹ یا صدر و وزیراعظم کو گھر بھجوانے کے کام نہیں۔ واضح رہے دو صحافیوں کے مضامین کے تسلسل نے معاملہ کو اس قدر اہم بنایا اور عدالتوں تک پہچانے میں کردار ادا کیا ۔ پھر 2002/03 میں جب مہاتیر مخالف اقتدار میں آئے تو انہوں نے آئینی ترامیم کا از سر نو جائزہ کی بات ضرور کی۔ گویا سلسلہ ترامیم چلتا رہتا ہے آئین کبھی مکمل نہیں ہوتے کیونکہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے جس میں تغیر کا سوچتے رہنا ارتقاء کا سا حسن ہے اور قانون سازوں کا کام بھی ، عدالتوں کا نہیں!

ایسی بھی مثالیں ہیں کہ امریکی صدر نکسن کی مجبوری بن گئی کہ توازن کی خاطر اُسے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پس پشت ڈالنا پڑا۔ کچھ ایسے ہی چیلنجز کا سامنا بل کلنٹن، بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے امریکی صدور کو بھی بہرحال رہا اور ان لوگوں کو ایگزیکٹو آرڈرز اور ریاستی فہم و فراست سے کام لینا پڑا۔ امریکہ اب تک 27 ترامیم متعارف کرا چکا ہے کہ گلشن کا کاروبار چلے۔

جب کپتان کی حکومت بذریعہ عدم اعتماد گئی تو خان نے کے پی کے اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑ دی، اسے معلوم تھا کہ اس کی مقبولیت کے سبب وہ تین ماہ کے اندر اندر دونوں صوبوں میں میدان مار لیں گے ۔ اس سے ہوگا یہ کہ مرکزی حکومت ناتواں ہو جائے گی اور اس پر حملہ کردیا جائے گا، اور یوں اقتدار واپس آجائیں گے۔ پھر تحریک انصاف کو یہ بھی سو فیصد یقین تھا عدلیہ کے فیصلے ان کے حق میں آئیں گے۔ اس کا نقصان یہ تھا کہ یہ ایک صوبائی مڈٹرم الیکشن/مکمل الیکشن کو جاتا جو اگلے پانچ سال کا مستقبل متعین کرتا ، پھر اگر سال بعد قومی اور سندھ و بلوچستان کے الیکشن ہوتے ان کا مستقبل بھی تراشتا ۔ یہاں آئین کی دفعہ 254 سامنے آئی کہ گو الیکشن/ کوئی کام تین ماہ/ معینہ وقت میں ضروری ہیں ، اور بعدازاں بھی لازم لیکن کسی ایمرجنسی یا غیر معمولی حالات میں تین ماہ/ معینہ مدت سے آگے بھی جاسکتے ہیں ۔ جس کو پی ڈی ایم حکومت نے چاہا کہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک انہیں آگے کیا جائے گویا حکومت ڈٹ گئی اور عدلیہ کے سامنے بھی کھڑی ہوتی دکھائی دی !
رفتہ رفتہ وہاں تک معاملہ پہنچ چکا کہ دو صوبوں میں نگران سیٹ تین ماہ سے زیادہ چلا سو ان حکومتوں کو بھی غیر آئینی گردانا گیا لیکن “نظریہ ضرورت” یا “گناہ لازم” کے طور پر اس لئے سب ہضم ہو گیا کہ ناتجربہ کاری نے جو سانحہ 9 مئی تراشا اس نے کسی سیاست کو مرہم دیا کسی کو زخم سو الٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔ یوں لگا جیسے لکڑ ہضم پتھر ہضم ، اور قیادتیں رہیں ضد اور تعصب کے طواف میں!

تحریک انصاف کا سارا دور حکومت اس پر محیط تھا کہ اپوزیشن چور ہے، ڈاکو ہے۔ کوئی پوچھتا آپ کا ترقیاتی گراف کیا ہے ، خارجہ پالیسی کیا ہے تو جواب ملتا “اپوزیشن چور ہے ڈاکو ہے!” مکالمہ کو ترجیح دینے کے بجائے جب عدالتوں کی ترجیح کا بول بالا رہے گا تو یہی کچھ ہوگا۔

نہیں معلوم اب نگران وزیراعظم کون آئے اور کس بنیاد پر پی ڈی ایم اور مقتدر میں اتفاق، الیکشن کی شاہراہ پر کب اور کیسے چڑھا جائے لیکن میثاقِ جمہوریت تشکیل دینے والے سبھی عوامل سے بالعموم اور آصف علی زرداری سے بالخصوص یہ توقع ہے کہ آئینی نزاکتوں کو فراموش نہیں کیا جائے گا، اور نہ وضع دارانہ و قائدانہ صلاحیتوں ہی کو نظر انداز کیا جائیگا۔ خیال رہے کسی 35 پنکچر کے شور اور آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھنے کا زہر آنے والے جمہوری کلچر کو آلودہ اور فرسودہ نہ بنا پائے۔ آئین ایک زندہ دستاویز ہوا کرتی ہے پس اقوام آئین اور قانون کی پاسداری معظم ہوتی ہیں اور اسٹیٹس مین اسپرٹ سے مفخَم

اپنا تبصرہ بھیجیں