ملک میں بجلی کی قیمت کا تعین بنیادی طور پر دو چیزوں سے ہوتا ہے: پہلی ایندھن کی قیمت، دوسرا ڈالر کی قیمت۔ چونکہ بجلی پیداوار کے لیے گزشتہ عرصے میں لگائے گئے بیشتر پاور پلانٹس فرنس آئل، ڈیزل، کوئلے یا گیس وغیرہ سے چلتے ہیں اور آئی ایم ایف شرائط کے تحت مارکیٹ ڈالر کی قیمت کا تعین کرتی ہے اس لیے اِن درآمدی ایندھن کی قیمت روپے کی موجودہ فی ڈالر قیمت کے حساب سے ادا کرنی ہوتی ہے۔
موجودہ قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ ظالمانہ شرائط اور “معاشی خود انحصاری” کے نام پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حکومت کی عملدراری سے آزادی ہے۔ ان شرائط کے تحت اب ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ سے ہوتا ہے اور اسٹیٹ بینک پر حکومت پاکستان کا کنٹرول محدود ہو گیا ہے۔ اگر حکومت مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے تو حکومت کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر کی ویلیو کم ہوجاتی ہے جس سے حکومت کے لیے مالی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کے تحت حکومت ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کنٹرول نہیں کرسکتی بلکہ ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ سے کیا جائے گا۔ اس طرح بجلی کی قیمت کا تعین کرنے والے دو عوامل، یعنی درآمدی ایندھن اور ڈالر کی قیمت، حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
مہنگی بجلی کی ایک بنیادی وجہ بجلی پیدا کرنے والے نجی پاور پلانٹس سے کیے گئے معاہدوں کے تحت وہ بھاری بھرکم ادائیگیاں بھی ہیں جوکہ کیپیسٹی چارجز کے نام پر کی جاتی ہیں۔ جب بجلی کا استعمال کم ہورہا ہو تو بجلی کمپنیاں اپنے پلانٹ بند کردیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں صارفین پر کیپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھتا ہے۔ یا آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر ایک آئی پی پی کے پاس 100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ ٹرانسمیشن استعداد نہ ہونےیا کم ضرورت کی وجہ سے صرف 60 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے، تب بھی معاہدے کے تحت حکومت ا±سے پورے 100 میگاواٹ کی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین ا±س بجلی کی قیمت بھی ادا کرنے کی پابند ہے جو نہ تو پیدا ہوئی اور نہ ہی خرچ ہوئی۔ اب چونکہ شرحِ مبادلہ اور شرح سود میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اس لیے پاور کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت صارفین بھی کیپیسیٹی چارجز کی مد میں زیادہ سے زیادہ ادائیگی کرنے کے پابند ہیں، باوجود اس کے کہ انہیں اِن ادائیگیوں کے بدلے کوئی بجلی نہیں ملی۔
2018 میں پاکستان نے کیپسٹی چارجز کی مد میں 500 ملین روپے ادا کیے اور اس کے بعد سے یہ رقم شرح س±ود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بجلی پیداواری کمپنیاں مندرجہ ذیل فارمولہ کے تحت صارفین سے کپییسٹی چاجز وصول کرتی ہیں: پیدا شدہ یونٹس (کلو واٹس/گھنٹہ) / بجلی گھر کی کل پیداواری صلاحیت x 100
اس فارمولے کے تحت بجلی پیداواری کمپنیاں پیدا شدہ بجلی کی قیمت ایک دفعہ وصول کرنے کے بعد اپنی پیدا شدہ بجلی کے فی گھنٹہ یونٹس کو اپنی کل پیداواری صلاحیت سے تقسیم کرکے اسے 100 سے ضرب دے کر ا±س بجلی کی قیمت بھی وصول کرتی ہیں جو ا±س نے اپنے پلانٹ سے پیدا ہی نہیں کی۔ حال ہی میں نیپرا نے پیداواری کمپنیوں کے لیے کیپیسٹی چارجز کی مد میں طے شدہ قیمت میں مزید اضافہ کرکے تقریباً 30 روپے فی کلوواٹ/فی گھنٹہ کردیا ہے۔ معاہدے کے تحت یہ ادائیگیاں ڈالر میں ہونے کی وجہ سے صارفین سے ڈالر کے موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق وصولی کی جاتی ہے۔ موجودہ مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین ان پاور پلانٹس کو ایک اعشاریہ 3 ٹریلین روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کریں گے جو بند پڑے ہیں، جبکہ اگلے سال یہ رقم بڑھ کر 2 ٹریلین روپے (2000 ارب روپے) ہوجائے گی۔ بعض آئی پی پیز کو خلافِ ضابطہ مالی فوائد پہنچانے کے لیے طے شدہ معاہدوں میں ترامیم کرکے زائد ادائیگیاں بھی کی گئی ہیں۔
ایک اور مسئلہ چوری شدہ بجلی کی قیمت کا ہے جو لائن لاسز کے نام پر باقاعدگی اور ایمانداری سے بل ادا کرنے والے صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بے ایمان لوگوں کی بے ایمانی کا بوجھ ایماندار بجلی صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ملک میں تقریباِ 467 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور مالی سال 2023 میں اس چوری شدہ بجلی کے بدلے سبسڈی کے نام پر تقریباً 976 ارب روپے ادا کیے گئے۔ نادہندگان میں بڑے بڑے سرکاری ادارے، کارپوریشنز، نجی کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں، لیکن ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ان نادہندگان کی فہرست فراہم کرنے سے گریزاں ہیں اور یہ سارے اخراجات باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین سے لائن لاسز کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف 1 لاکھ 89 ہزار171ریٹائرڈ اور حاضر سروس واپڈا ملازمین کو ماہانہ 3 کروڑ 47 لاکھ 58 ہزار 825 فری یونٹس دیے جارہے ہیں جس سے قومی خزانے کو سالانہ 8 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے جو اگلے برس بڑھ کر ساڑھے 11 ارب روپے ہوسکتا ہے، جبکہ اربوں روپے کا یہ نقصان باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین کے بلوں میں ڈال کر پورا کیا جاتا ہے۔
لائن لاسز کی تعریف میں وہ صارفین آتے ہیں جو بجلی کے بل کی پوری ادائیگی نہیں کرتے یا بل تاخیر سے ادا کرتے ہیں یا اقساط میں بل ادا کرتے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کوائلز یا دیگر طریقوں سے بجلی چوری کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ ان صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے جو باقاعدگی اور ایمانداری سے ماہانہ بنیادوں پر بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔ اس طرح پاور سیکٹر کا خسارہ بڑھتا ہے جسے سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضہ کا نام دیا جاتا ہے۔
بحران کا حل کیا ہے؟
اس ساری صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بحران کا حل کیا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مختلف قسم کے شارٹ ٹرم، مِڈ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں اور حکمتِ عملی کے ذریعے ملک میں جاری توانائی بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ فوری طور پر مندرجہ ذیل ا±مور غور طلب ہیں:
لائنز لاسز یا بجلی چوری روکنا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جسے وہ اب تک روکنے میں ناکام ہے۔ اس ناکامی کی وجہ خود سرکاری اداروں ، واپڈا سمیت بڑے بڑے کارپوریشنز کو فری بجلی استعمال کی اجازت اور نجی و سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہے۔ حکومت اور بجلی تقسیم کار کمپنیاں بھی اس معاملے میں کسی واضح اور قابلِ عمل حکمتِ عملی سے عاری ہیں، بلکہ وہ خود مجرمانہ غفلت کے تحت اس سے چشم پوشی کررہے ہیں۔بجلی چوری یا مفت بجلی استعمال ختم کرنے کیساتھ ساتھ پورے ملک کی سطح پر بجلی ترسیل اور تقسیم (transmission and distribution) کے نظام کو بھی اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بالخصوص کیپیسٹی چارجز کی مد میں ڈالر میں وصولیاں قطعاً ناجائز اور عوام پر ظلم ہے۔ لہٰذا ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں ہی ادائیگیاں ہوں اور ادائیگی بھی صرف ا±س بجلی کی مد میں ہو جو پیدا کی گئی اور اسے استعمال میں لایا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے بجلی تقسیم کار کمپنیاں صوبوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ اچھی بات ہے لیکن کیا حکومت کے اس اقدام سے عوام کو سستی بجلی ملنی شروع ہوجائے گی؟ یا کم از کم جن صوبوں میں ہائیڈل الیکٹریسٹی ہے وہاں کے عوام سستی بجلی کے حق دار ٹھہریں گے؟ ابھی وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ (چونکہ وہ نیشنل گرڈ میں پن بجلی یعنی سستی بجلی کے بڑے حصہ دار ہیں) اس لیے ا±ن سے ہائیڈل پاور کے مطابق ہی نرخ وصول کیے جائیں۔ یہ مطالبہ صوبہ خیبرپختونخوا سے بھی آسکتا ہے جہاں سب سے زیادہ ہائیڈل پاور جنریشن ہوتی ہے۔ بہرحال یہ اور اس جیسے دیگر بہت سارے سوالات ایسے ہیں جنہیں اس معاملے میں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت عوام کے لیے سب سے زیادہ دردِ سر بننے والا مسئلہ بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے نتیجے میں بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگی کا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ فی یونٹ بنیادی قیمت میں مسلسل اضافہ کے بعد ہزار گنا زیادہ بل عوام سے وصول کیے جارہے ہیں، تاکہ آئی ایم ایف کے س±ود کے قسطوں کی ادائیگی یقینی بنائی جاسکے۔ گزشتہ 16 یا 17 ماہ میں 45 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں عوام کے جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر کی جاچکی ہیں اور ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے یہ سلسلہ مزید گھمبیر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پورا ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اِسے چلائے جارہا ہے۔ اس سے پہلے کہ مہنگائی کا یہ طوفان ملک و قوم کو بہاکر لے جائے، اس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ قرضوں اور س±ود کی ادائیگی کا بوجھ عام لوگوں پر ڈالنے کی بجائے اشرافیہ پر ڈالا جائے۔ اگر یہ اشرافیہ بیرونِ ملک بنکوں میں رکھی گئی اپنی رقوم اور جائیدادوں کا کچھ حصہ آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں اور س±ود کے لیے وقف کردیں تو بعید نہیں کہ ملک و قوم کو بہت کم عرصے میں قرضوں اور س±ود کی لعنت سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔
حکومتی سطح پر توانائی کے متبادل ذرائع/قابلِ تجدید توانائی (سولر، وِنڈ پاور وغیرہ) پر مبنی منصوبوں کا قیام عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مختلف حکومتوں میں کسی حد تک اس پر کام بھی ہوا، لیکن غیرسنجیدگی کے باعث اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس کے ساتھ ہی ہائیڈل پاور جیسی سستی بجلی کے منصوبوں (بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، مہمند ڈیم وغیرہ) پر جاری کام کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرکے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم سے کم کیا جاسکے۔ انرجی مکس میں ہائیڈل اور تھر کے کوئلے سے بننے والی بجلی کا حصہ بڑھاکر نہ صرف عوام کو سستی بجلی میسر آسکتی ہے بلکہ درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والے کثیر زرِمبادلہ کی بچت کے ذریعے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ قابلِ تجدید توانائی پالیسی 2019ء کے مطابق ملک میں سولر اور وِنڈ انرجی کو فروغ دے کر انرجی مکس میں اس کا حصہ سال 2025ء تک25 فیصد اور سال 2030ءتک 30 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ، تاہم عدم دلچسپی کے باعث یہ پالیسی بھی تاحال سردخانے کی نذر ہے۔
نئے انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی کے ذریعے آئین میں ترامیم کرکے بھی حکومت کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ (1) کسی غیر ملکی امدادی ادارے ، حکومت یا فرد سے معاہدہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے اس کی پیشگی منظوری لی جائے گی؛ (2) اندرونی یا بیرونی ذرائع سے لیے گئے قرضوں اور س±ود کی ادائیگی کا بوجھ عوام پر ٹیکسز عائد کرکے نہیں ڈالا جائے گا بلکہ یہ رقم سرکاری اداروں کے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے ادا کی جائے گی۔
عوام کے اندر بھی بجلی استعمال کے حوالے سے شعور ا±جاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بجلی استعمال سے متعلق پیک آوورز اور آف پیک آورز کا تصور اور ان اوقات میں بجلی کے الگ الگ ٹیرف عوام کو غیرضروری ا±لجھن میں مبتلا کرنے کے سوا کچھ نہیں، بجلی صارفین کی اکثریت اب بھی اِن اوقات میں بجلی استعمال میں احتیاط سے ناواقف اور پیک آورز ، آف پیک آورز کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے انہیں کم یونٹس استعمال کے باوجود زیادہ بل آجاتا ہے۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ پیک آورز کے تحت اضافی ریٹس کا نظام ہی ختم کردیا جائے۔ جب عوام بیسیوں قسم کے ٹیکسز پہلے ہی ادا کررہے ہیں تو اس نئی ا±لجھن میں ا±نہیں مبتلا کرنے کی کیا ضرورت؟ اب جبکہ بجلی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہونے لگی ہے، اور انرجی مکس (ہائیڈل، تھرمل، گیس/ایل این جی، سولر، نیوکلیئر اور کوئلے وغیرہ سے بننے والی بجلی) میں فی یونٹ اوسط پیداواری لاگت 7 روپے سے کم ہے، تو پھر عوام کو مہنگے داموں بجلی فروخت کرنے کی کوئی ت±ک نہیں بنتی۔
اس وقت عوام کے اندر بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی مسلسل اور ناقابلِ برداشت بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف شدید اشتعال اور غم و غصہ ہے۔ بجلی کے بلوں میں کم و بیش ہزار گنا اضافہ نے عوام کا پارہ ہائی کردیا ہے۔ چند سو روپے روزانہ کمانے والے دیہاڑی دار طبقہ سے لے کر مڈل اور اپر مڈل کلاس بھی بجلی کے بھاری بھرکر بل ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف واپڈا ملازمین اور دیگر سرکاری افسران مفت خوری کی پالیسی کے تحت کروڑوں یونٹ ماہانہ فری استعمال کررہے ہیں۔ اس مفت خوری کو لگام دینے کے عوامی مطالبے پر عملدرآمد کی بجائے واپڈا ملازمین کو مزید مراعات سے
نوازتے ہوئے حکومت نے تمام گریڈ کے ملازمین کیلئے خصوصی الاونس کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے مطابق سکیل 1 سے 10 تک کے ملازمین کے لئے 8 ہزار سے 14 ہزار 500 روپے، سکیل 11 سے 20 تک کے ملازمین و افسران کو 15 ہزار 500 سے 60 ہزار روپے تک الاو¿نس ملے گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پہلے سے میڈیکل الاو¿نس حاصل کرنے والے ملازمین اور افسران کو بھی واپڈا الاو¿نس ملے گا، گریڈ 17 تا 20 کے افسروں کے لئے 10 ہزار روپے پروفیشل الاو¿نس بھی منظور کرلیا گیا۔ ساتھ ہی واپڈا ملازمین نے فری یونٹس بند کرنے کی صورت میں حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔
ملک میں جاری معاشی، سیاسی، آئینی، انتخابی بحرانوں کے حل کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظرثانی کی جائے۔ قرضوں اور س±ود کی بنیاد پر نہ کسی قوم نے ترقی و خودانحصاری کی منزل حاصل کی ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ قرضوں اور س±ود کی بنیاد پر قائم معیشت نے عوام کو زندہ درگور کرکے رکھا دیا ہے، 50 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔حکمران طبقے کی عیاشیوں اور بدمعاشیوں کا بوجھ برداشت کرنے کی اب عوام میں سکت نہیں رہی۔
اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف ملک کے گلی کوچوں میں مسلسل جاری شدید عوامی ردعمل ایک نئے انقلاب کی نوید دے رہا ہے۔ جماعتِ اسلامی عوامی ا±منگوں کی ترجمانی کے لیے میدانِ عمل میں ہے۔ 02 ستمبر کو تاریخ ساز اور کامیاب ملک گیر شٹرڈاو¿ن ہڑتال نے ثابت کردیا ہے کہ اب ظلم کی سیاہ رات ختم ہونے کا وقت قریب ہے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں ، وگرنہ عوامی غیض و غضب کے نتیجے میں ا±ٹھنے والے انقلاب سے ایک نئی صبح طلوع ہوگی جو ہر قسم کے ظلم اور ناانصافی کے خاتمہ کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ آئین کے مطابق 90 روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے۔
