کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے رات بھر چاند کے ہم راہ پھرا کرتے تھے جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے کر دیا آج زمانے نے انہیں مزید پڑھیں
جے تنگ ہویں ساڈی ذات کولوں دے صاف دسا تیری جان چھٹے تیکوں پیار کیتا تیرا مجرم ہاں دے سخت سزا تیری جان چھٹے رب کولوں منگی ضائع نی تھیندی منگ دیکھ دعا تیری جان چھٹے اویں مار نہ شاکر مزید پڑھیں
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو یہ کناروں سے کھیلنے والے ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو آج ہم بھی مزید پڑھیں
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں شکریہ مشورت کا چلتے ہیں ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں مزید پڑھیں
روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیںدر سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہےبعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی مزید پڑھیں
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھیحالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کوجو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی گھرمیں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی مزید پڑھیں
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہمگہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہےصدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم ذرے کے زخم دل پہ توجہ کئے بغیردرمان درد شمس و مزید پڑھیں
چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہآنکھیں ہیں کہ بحرینِ تقدس کے نگیں ہیں ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہےعارِض ہیں کہ ”والفجر“ کی آیت کے اَمیں ہیں گیسو ہیں کہ ”وَاللَّیل“ کے بکھرے ہوئے سایےابرو مزید پڑھیں
سب جن کے لیے جھولیاں پھیلائے ہوئے ہیںوہ رنگ مری آنکھ کے ٹھکرائے ہوئے ہیں اک تم ہو کہ شہرت کی ہوس ہی نہیں جاتیاک ہم ہیں کہ ہر شور سے اکتائے ہوئے ہیں دو چار سوالات میں کھلنے کے مزید پڑھیں
میر تقی میر کا یوم وفات پیدائش: 28 مئی 1723ء وفات: 20 ستمبر 1810ء آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے نا سمجھ مزید پڑھیں