الیکشن کمیشن آف پاکستان چونکہ یہ اعلان کر چکا ہے کہ نئی مردم شماری کے بعد اب موجودہ حد بندیوں پر انتخابات کرانا ممکن نہیں رہا سو نئی حد بندی کے عمل کو دسمبر کے وسط تک مکمل کر لیا جائے گا، اس کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کروانا اب ممکن نہیں رہا ہے، کیونکہ نئی حد بندیوں میں وقت لگے گا اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ نئی مردم شماری کے بعد پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کروائے جائیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہےکہ جب سابق حکومت میں شامل تمام جماعتوں کواس بات کا اندازہ تھا تو مردم شماری کے عمل کو 4 ماہ پہلے مکمل کیوں نہ کیا گیا ،جاتے جاتے مردم شماری کے نتائج تسلیم کر کے تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات کو طول دینے کے دروازے خود کھول دیئے اور اب یہی جماعتیں عوام کو گمراہ کرنے کیلئے بیانات دے رہی ہیں کہ انتخابات 90 دن کے اندر ہونے چاہئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بروقت انتخابات کو مشکل بنانے کیلئے قانونی اور آئینی الجھنیں دانستہ طور پر پیدا گئی تھیں، تاخیر کی بڑی ذمہ داری پی ایم ایل-این پر جاتی ہے جس کی قیادت نے بروقت مردم شماری کا عمل مکمل نہ کیا، اس کے بعد مردم شماری اور تازہ حد بندی کو انتخابات میں تاخیر کی وجوہات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، مئی میں 2023 کی مردم شماری کیلئےعارضی نتائج تیار تھے،اگر پی ڈی ایم حکومت نے تمام فریقوں کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہوتا اور کئی ماہ قبل نتائج کے بارے میں سی سی آئی کو مطلع کرنےکیلئے اجلاس بلایا ہوتا تو بروقت انتخابات کی راہ ہموار ہو چکی ہوتی لیکن لگتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت عمران خان کی مقبولیت سے خائف تھی، اسے یقین نہیں تھا کہ عوام اسے ووٹ دیں گے اور وہ اس انتظار میں تھی کہ کسی طرح عمران خان کو فارغ کروایا جائے لیکن کیا یہ کوئی اچھی اور جمہوری روایت ہے ؟ تاخیر سے مردم شماری کو منظور کروانا ہر حوالے سے جمہوریت مخالف اقدام لگ رہا ہے جس میں پی پی پی بھی ملوث ہے کیونکہ سندھ کو موجودہ مردم شماری پر شدید تحفظات ہیں جن پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں لیکن پی پی پی چونکہ وفاق کی علامت ہے، لہٰذا اس کیلئے ہوسکتا ہے صرف سندھ کی بات کرنا مشکل ہو ورنہ اندھے اور بہرے کو بھی اندازہ ہے کہ موجودہ مردم شماری میں سندھی عوام کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہےمگر مردم شماری کے تازہ اعداد و شمار کے بارے میں 5 اگست کے سی سی آئی کے اجلاس میں اتفاق رائے ہوگیا ، جس میں مراد علی شاہ بھی موجود تھے اور دیگر وزراء بھی تو پھر کسی نے سندھ کے ساتھ مردم شماری میں ہونے والے دھوکے پر بات کیوں نہ کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر جس طرح کی نگران کابینہ سامنے آئی ہے اس میں سندھ کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے،ایک بڑی نگراں کابینہ کی تقرری بھی تشویش کا باعث ہے،ایک نگراں حکومت روزانہ کے معاملات، قانون اور معیشت کو ٹریک پر رکھنے اور بروقت اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کیلئےضروری ہے مگر اس میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی بھی ضروری ہے۔ لہٰذا ، ایک 24رکنی کابینہ ، جس میں قومی ورثہ اور سیاحت جیسے محکمے شامل ہیں ، غیر ضروری ہے جس سے خرچہ بڑھے گا، کابینہ کا حجم 7 سے زیادہ لوگوں کا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ اس سلسلے میں ، نگراںوزیر اعظم نے ، جمعہ کے روز اپنی پہلی کابینہ کے اجلاس کے دوران ، ایک بہترین بیان دیا کہ ان کے اور ان کی ٹیم کے پاس ’مستقل مینڈیٹ‘ نہیں ہے،نگراں وزیر اطلاعات نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ نگراں افراد اپنے قیام کو طول دینے کا ارادہ نہیں رکھتے،اس طرح کے بیانات نیک شگون ضرور ہیں اس لئے کہ انتخابات کو طول دینا کسی صورت قبول نہیں۔ 90 دن بعد وزیر اعظم سمیت تمام لوگوں کو مستعفی ہوجانا چاہئے کیونکہ وہ غیر منتخب لوگ ہیں، ایک نئی منتخب حکومت ہی عوام پر حکمرانی کا حق رکھتی ہے نہ کہ غیر منتخب ۔حقیقت اگرچہ یہ ہے کہ ، فروری سے پہلے انتخابات کا ہونا اب ممکن نہیں رہا، اس کے باوجود اس تاریخ سے آگے کوئی تاخیر ایک نئےآئینی بحران کو جنم دے سکتی ہے ، کیونکہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں ، منتخب اسمبلیوں کے بغیر ، سینیٹ کا انتخاب ممکن نہیں ہوگا،آئین کو نظرانداز تو پہلے ہی کے پی اور پنجاب کے معاملے میں کیا جاچکا ہے وہ مکمل غیر جمہوری اقدام تھا ، نگراں حکومت کو الیکشن میں تاخیر کم سے کم کرنا چاہئے،جبکہ ای سی پی کو عام انتخابات کی ایک حتمی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ غیر یقینی صورتحال کے باعث معیشت مزید کمزور نہ ہو، امید ہے ای سی پی دسمبر یا جنوری کے پہلے ہفتے میں انتخابات کا اعلان کردے گا اور نئی حلقہ بندیوں کے عمل کو فی الفور مکمل کرلیا جائے گا۔
