Ali Moeen Nawazish Pakistani columnist

برین ڈرین

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی میں تین لاکھ 95ہزار سے زیادہ افراد نے روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک رُخ کیا۔ گزشتہ برس بھی تقریباً آٹھ لاکھ افراد نے بہتر روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک کا رُخ کیا تھا لیکن اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلاتِ زر میں 13.6فیصد کمی واقع ہوئی۔ پاکستان سے زیادہ تر دو قسم کے افراد بیرونی ممالک کا رُخ کرتے ہیں، ایک وہ جو بہت زیادہ مجبوری میں باہر جاتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں کوئی غیر قانونی راستہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے، جیسا کہ جون میں یونان میں ڈوبنے والی کشتی پر سوار افراد، ان میں زیادہ تر کے پاس کوئی ہنر نہیں ہوتا اور وہ باہر جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے ہنر میں ماہر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں پاکستان میں اپنا اچھا مستقبل نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں مزدور طبقے کے لیے کبھی بھی اچھی کمائی اور بہتر مستقبل کے مواقع میسر نہیں رہے اس لیے وہ زیادہ تر خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا رُخ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے اہلِ خانہ سے دور رہ کر، محنت مشقت کر کے ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں تاکہ ان کے گھر والے بہتر زندگی گزار سکیں۔ آج سے پانچ چھ سال پہلے تک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحبِ حیثیت لوگ یہ حساب کتاب ضرور لگاتے تھے کہ پاکستان میں رہ کر بے شک وہ تھوڑا کم کمائیں گے لیکن یہاں خرچے بھی کم ہیں اور وہ یہاں رہ کر اپنے گھر والوں کیساتھ زیادہ وقت گزار سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہاں انہیں ڈرائیور، نوکر، باورچی اور مالی وغیرہ بھی با آسانی اور کم اجرت پر میسر ہوتے ہیں لیکن بیرونی ممالک میں ان افراد کی خدمات بہت مہنگی پڑتی ہیں۔ یوں بیرونی ممالک کے فائدوں اور نقصانات کا پاکستان کے ساتھ موازنہ کرکے کچھ یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیتے تھے۔ پاکستان میں رہ کر وہ اتنا کما لیتے تھے کہ یہاں ایک متمول زندگی بسر کر سکیں۔ آمدن اچھی ہونے کی وجہ سے یہ سال میں کسی بیرونی ملک کا ایک آدھ چکر بھی لگا لیتے تھے جس کے ویزے کے حصول میں انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔

اب لیکن ہر کوئی اسی کوشش میں نظر آتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح امیگریشن مل جائے۔ اب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان، روز افزوں افراطِ زر اور ملک کو درپیش معاشی و سیاسی عدم استحکام نے نہ صرف اچھے روزگار کا حصول مشکل بنا دیا ہے بلکہ جس اچھے طرزِ زندگی کے لیے بعض افراد پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے، ان عوامل کے باعث اب وہ بھی تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔

پھر ایک اور زیادتی جو پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ سارا ٹیکس انہی سے وصول کیا جاتا ہے۔ شہباز رانا کی طرف سے فائل کی گئی ایک خبر کے مطابق پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ برآمد کنندگان اور ریٹیلرز سے دو سو گنا زیادہ ٹیکس دیتا ہے، جو کہ حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ اس بھاری ٹیکس کے عوض اگر انہیں صحت، تعلیم اور سکیورٹی کی اچھی سہولیات میسر ہوتیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن جن بنیادی سہولیات کیلئے عوام سے ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے ان کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔

پچھے دنوں ایک مغربی ملک کی طرف سے ایک اچھے بھلے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے شعبے میں ماہر پاکستانی کے ویزہ کی منسوخی کا لیٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ جس کی وجہ یہ امر قرار دیا گیا کہ پاکستان میں روز افزوں غربت اور مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور معاشی و سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہمیں یہ یقین نہیں کہ آپ واپس پاکستان جائیں گے۔ میرے اپنے کئی ایسے جاننے والوں، جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا، کو اسی وجہ سے بیرونی ممالک کے ویزے نہیں مل رہے کہ پاکستان کے حالات کی وجہ سے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ بیرونی ممالک کے ویزے کے حصول کیلئے جتنے پاپڑ اب بیلنا پڑتے ہیں پہلے نہیں بیلنا پڑتے تھے۔ شاید انہی وجوہ کی بنا پر پاکستان میں کسی کو ویزہ ملنا ایک بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے اور ویزہ نہ ملنا ناکامی اور باعثِ شرمندگی تصور ہوتا ہے۔

ان سب وجوہات کے ساتھ ساتھ برین ڈرین کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کیلئے میسر مواقع میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ آج کل وہی لوگ کامیاب تصور کیے جاتے ہیں جنہوں نے پاکستان سے باہر اپنا کاروبار جما رکھا ہے یا جو ڈالرز میں کماتے ہیں۔ پاکستان میں لیکن جب کوئی شخص کوئی کاروبار شروع کرنے لگتا ہے تو سارا نظام اس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ افراد جو مضبوط خاندانی پس منظر یا افسر شاہی کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتے ہیں، وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پھر یہاں کوئی صنعت لگانا یا کوئی بھی اور کاروبار کرنا بہت مشکل ہے لیکن کوئی رہائشی سکیم بنا کر بیچنا اتنا ہی آسان ہے۔ امریکی مائیگریشن انسٹیٹیوٹ کے مطابق، پاکستان کے وہ ہنرمند افراد، جو امریکہ کا رُخ کرتے ہیں، کی مقامی افراد کے مقابلے میں کمائی بھی دوگنی کے قریب ہے اور امریکی معیشت میں ان کا حصہ بھی قابلِ قدر ہے۔

کینیڈا میں میری بہت سے بھارتی ہنرمند افراد سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، جن میں کچھ مجھے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ان کے لیے اب بھارت واپس جانے میں زیادہ فائدہ ہے، کیونکہ بھارت کی معیشت بھی مضبوط ہو رہی ہے اور بھارت میں رہ کر وہ کینیڈا سے زیادہ بچت کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ جہاں ہمارے ہمسایہ ملک میں ریورس برین ڈرین کا رجحان بڑھ رہا ہے وہاں ہمارے ہاں ملک سے باہر جانے کے جنون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی حکومت اب بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی بات کر رہی ہے، خصوصی اکنامک زون بنانے کی بات کر رہی ہے، لیکن ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ان اقدامات کیساتھ ساتھ برین ڈرین کا سلسلہ روکنا بھی ضروری ہے تاکہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد پاکستان میں رہ کر ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکیں کیونکہ جہاں مزدور طبقہ آخر کار پاکستان میں ہی سارا پیسہ لتا ہے چونکہ دوسرے ملک میں ان کو شہریت نہیں ملتے وہاں ہنر مند لوگوں کے لیے شہریت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہاں کہ ہی ہو کر رہ جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں