Ali Asghar Abbas

پھپھولے

شعر کہتے ہی عمر بیت چلی ہے مگر نہ ہمیں شاعری کا ہنرآیا اور نہ ہی دوسرے شاعروں کی طرح بطور شاعر اپنی مارکیٹنگ کرنے کا…. نتیجہ یہ کہ لگتا ہے نصف صدی کی شاعرانہ زندگی اکارت گئی. جب تک زندہ تھے قریبی یار دوستوں کا حلقہ میسر تھا جن کو شاعری سنا کر ان کی طرف سے حرفِ پذیرائی کو تحسینِ سخن شناس سمجھ کر بہت حوصلہ افزا جانتے اور پھر ہر صبح کا آغاز سخن گوئی سے کرتے. نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں… واقعی ہم نے زندگی کے 66 برسوں میں سے نصف صدی شاعری کو دے کر حسابِ عمر کا گوشوارہ بنا کر دیکھا تو” خسارا ہی خسارا ہے ” والا معاملہ ہے.. جس شعروشاعری کے لئے دن کا بیشتر حصہ وقف کر رکھا تھا وہ ہمیں ڈوبتی شام کے کنارے ان بجھے چراغوں کے درمیان چھوڑکر تماشہ دیکھ رہی ہے جن کے دوبارہ روشن ہونے کی کوئی امید نہیں کہ چراغوں میں ڈالنے کے لئے روغنِ زیتون یا گھی تو کیا ,استعمال شدہ سرسوں کا تیل بھی دستیاب نہیں , یوں بھی طاقِ نسیاں میں پڑے دیپ کی قسمت میں کہاں نگاہِ ناز کہ جس کے غلط انداز سے ہی سوئی ہوئی قسمت جاگ جائے …قسمت تو بے خواب شب ناکیوں میں نہ جاگی اب کنارِ گور جاگ کر کیا کرے گی؟ جب لوحِ مزار پر کندہ عبارت میں صرف تاریخ کی کھدائی کی گنجائش منتظرِ فردا ہے….. تاریخ, جو بننے سے زیادہ گذرنے کی طرف متوجہ رہی کہ نظر انداز ہونے والوں کا ذکر تو مرتبہ تذکار میں بھی شاذونادر ہی کہیں دوچار سطور کا اہل بنتا ہے. اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت…. کھیت میں کھیت ہوئے خیال تو آتا ہے کہ آخر ہم نے ساری عمر جھک مارنے کے سوا کیا ہی کیا ہے، کونسا تیر مارا ہے کہ جس کی زناٹے دار آواز سے ہی کوئی شکار دہل کر حواس باختہ ہو کر ہمارے قریب آن گرتا اور ہم بڑے طمطراق سے اس کے ساتھ تصویر بنا کر شیخی بگھار سکتے کہ یہ ہمارے ترکش میں اڑسے تیروں میں سے ایک تیر کی تیزی سے زیادہ ہماری تیر اندازی کا کمال ہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد…. خاک بھی ہے راکھ شد.. جو ہمارے اپنے ہی سر میں پڑی احساس دلاتی ہے :
”قرونِ اولی سے اس زمانے تک گیا ہوں
میں آشیانے سے آستانے تک آگیا ہوں
میں عہدِ موجود سے گریزاں سا ایک لمحہ
پرانی صدیوں کے دکھ اٹھانے تک آگیا ہوں
میں آج کڑیوں سے بیٹھا کڑیاں ملا رہا تھا
صدی صدی جوڑتا زمانے تک آگیا ہوں
خلا کے آنچل میں کون تارے سے ٹانکتا ہے
یہ راکھ پھونکوں سے میں اڑانے تک آگیا ہوں
نہ جانے بیٹھا میں کیا قلابے ملا رہا تھا
ادھیڑ بُن میں ہی دل ٹھکانے تک آگیا ہوں
کمال اس کا ہے جس نے مجھ کو کماں سے چھوڑا
میں تیر ٹیڑھا سا تھا, ٹھکانے تک آگیا ہوں
بیان کرنے کو ساری باتیں یہ عمر کم ہے
سو داستانوں سے اب فسانے تک آگیا ہوں !”
آئیے شاعری کی بیکار ہوتی زنبیل سے کچھ اور کلام یہاں کالم میں ہی پڑھ لیجیے کہ کتابی شکل تو پہلے پبلشرز کی بے اعتنائی کے سبب ممکن نہ ہوسکی اور اب تو مہنگائی کے عفریت نے رہی سہی امید بھی ختم کردی ہے :
ایک نظم(کفِ افسوس(
”رات گابھن ہوئی
اوراس نے
اندھیروں بھری کوکھ سے جتنے دن بھی جنے
وہسب تیرہ و تار چہرے لئے
سیاہی کی چادر میں لپٹے ملے
مرے سامنے کالی غاروں کے ایسے دہانے کھلے ہیں
کہ جن میں کسی نور لمحے کا کوئی تصور نہیں
ہمیشہ سے تاریکیوں میں گھرے غار
مجھے نوعِ انساں کی قسمت کے اوراق ایسے لگے ہیں
جہاں روشنی کی لپک میر صاحب
بموں کے دھماکوں سے ہی پھوٹتی ہے!
ایک دوسری نظم ملاحظہ کیجیے:
مردہ کیا بولے
کل ہم ایک جنازے میں تھے
رشتے دار، عزیز، اقارب ملنے والے،جاننے والے
اہلِ محلہ،اہلِ دیہہ اور اہلِ شہر
سب کے سب جنازے میں تھے
چارپائی پہ لیٹے مردہ جسم کی زندہ باتیں
کچھ کرتے،کچھ سنتے تھے
جیسے کہ وہ مرنے والاابھی ہنکارا بھر کے تائید کردے گا
کہ ساری باتیں سچی ہیں
میں ایسا ہی کرتا تھا
تم سب واقعی مخلص تھے
اور میرے ساتھ محبت کا دم بھرتے تھے
لیکن ایسا ناممکن تھا
ہر اک باتیں کرنے والا
اپنے تعلق،اپنے تعصب میںجو منہ آیا بول رہا تھا
مردہ چپ تھا،کیا بولے؟
ساری عمر وہ بھوکا ننگا،غربت اور افلاس کا مارا
بوسیدہ سے پھٹے پرانے چیتھڑے اوڑھے بیت گیا تھا
اب ایدھی سے ملنے والا دودھ سفید سا کورا لٹھا
پھاڑ کے عریاں دفن ہونے سے ڈرتا تھا
پانچ دہائیوں میںکٹیا سے
مٹی کی اک ڈھیری تک کے کٹھن سفر میں
بھوک سے مرنے والے اس کمزور بدن نے
نئے نکور سے کپڑے کا جو پہلا پہلا لمس چکھا تھا
اس کے نشے میں چپ سادھے وہ لیٹ رہا تھا
جھوٹے اور منافق لوگوں کی باتوں کا بوجھ
انہی پہ چھوڑ گیا تھا
کفن بچا کے قبر میں اترا
مٹی اوڑھ کے سونے کی تیاری میں تھا
رات سمے کچھ بیلچوں والے آئے
اس کا کفن اتارا
قبرستان کی خاموشی میں
بھوکے اور آوارہ کتے،سور
بھوک سے مرنے والے اس کمزور بدن کو نوچ رہے تھے
اگلے دن ہڈیوں کے اک کاروباری سیٹھ کا مزدا
قبرستان میں دھکے سے اسٹارٹ ہوا تھا
گورکنوں نے بیف کباب
اور پوا ،پوا بانٹ لیا تھا!

اپنا تبصرہ بھیجیں