muhammad khan abru

بلاول بھٹو زرداری

پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیرمین شپ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ پی پی پی کے ماضی کے چئیرمین جس جدوجہد کا سامنا کرتے رہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہر دور کے پی پی پی چئیرمین کے لیے پاکستان کوفہ رہا ہے جہاں انھیں مقتل گاہوں سے گزرنا پڑا۔ شہید زولفقار علی بھٹو جسی ایماندار اور محب وطن قیادت کو پھانی پر چڑھایا گیا، شہید بی بی کو قتل کردیا گیا، بیگم نصرت بھٹو کو جس طرح کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا اس پر لکھنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔ جو کچھ سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بیتی وہ بھی تاریخ کا ایک اہم حوالہ بن گیا ہے. بلاول بھٹو زرداری نے جب پی پی پی کی قیادت سنبھالی تو پیپلز پارٹی اپنی شہید بینطیر بھٹو جیسی قائد سے محروم ہوچکی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری ابھی تعلیم سے بھی فارغ نہیں ہوئے تھے۔ مگر بلاول بھٹو زرداری نے اس جماعت کی قیادت سمبھالنے کا فیصلہ کیا اور پھر مڑ کر واپس نہ دیکھا، ایسے میں بلاول بھٹو زرداری کو بھی ان ہی امتحانوں کا سامنا رہا جو ان سے پہلے پی پی پی قیادت کو رہے۔ کردار کشی سے لے کر کرپیش کے الزامات، یہاں تک کہ ایک سابق چیف جسٹس کو دوران کیس یہ کہنا پڑا کہ بلاول بھٹو زرداری کو ان کیسز میں کیوں شامل کیا ہے وہ تو معصوم ہیں کیوں کہ ان چیف جسٹس کو بھی معلوم تھا کہ جس شخص نے ابھی تک نہ کوئی وزارت سمبھالی نہ ایم این اے بنا اس پر ایسے الزامات لگانا کیسے درست ہوسکتا ہے لیکن اس چیف جسٹس کو یہ بھی معلوم تھا کہ صرف بلاول بھٹو زرداری ہی نہیں آصف علی زرداری کے خلاف بھی 2008 اور اس کے بعد بنائے گئے تمام کیسز جعلی ہیں لیکن چیف جسٹس کو یہ علم تھا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری کی طرح آصف علی زردای کے حوالے سے بھی سچ کہے دیا گیا تو پھر سالوں سے پی پی پی مخالف پالیسی کا ستیا ناس ہوجائے گا خیر میں بلاول بھٹو زرداری پر آج یہ کالم اس لیے لکھ رہا ہوں کہ جب وہ وزیر خارجہ بنے تو پی پی پی کے اندر بھی ایک دھڑا موجود تھا جو چاہتا تھا کہ وہ وزیر خارجہ نہ بنیں کیوں کہ انھیں پی پی پی چئیرمین کا شہباز شریف کا وزیر بننا قابل قبول نہیں تھا لیکن نوجوان سابق وزیر خارجہ کو بھی علم تھا کہ ایک ایسے وقت میں وزرات خارجہ سمبھالنا کسی چلینج سے کم نہیں تھا کہ جب پاکستان کے آمریکہ تو آمریکہ بلکہ چین سے تعلقات میں بھی سرد مہری تھی۔ بلاول بھٹو زرداری یہ بھی جانتے تھے کہ پڑوسی ملک میں آفغانستان میں طالبان سے بات کرنا آسان نہیں رہا تھا دوسری طرف معاشی مسائل میں ایک وزیر خارجہ کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ یہ ہی نہیں وزیر خارجہ کسی بھی ملک کا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطے میں اور خطے کا اطراف کے حالات سے باخبر ہو اور عالمی رہنماوں کے لیے قبولیت رکھتا ہو۔ بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزیر خارجہ کا عہدہ کسی چیلنج سے کم نہ تھابطور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عالمی سطح پر جو پذیرائی حاصل کی اس کے پیچھے شہید بی بی کی تربیت نظر آتی ہے۔ ایف اے ٹی آیف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کے لیے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری جرمن وزیر خارجہ سمیت دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر کامیاب بات چیت کرتے نظر ائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر ہوگیا اور دنیا بھر نے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی یہ ہی نہیں بلاول بھٹو زرداری نے یو این سیکریٹری جنرل کو سیلاب کے بعد پاکستان مدعو کرکے دنیا بھر کو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی طرف مبذول کرواتے ہیں یہ باور کروایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں جو تباہی پاکستان کا مقدر بن رہی ہے اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں مگر ترقی یافتہ ممالک کا پورا ہاتھ تھا جو اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آئے اور بلاول بھٹو زرداری کی بات کی کئی عالمی رہنماوں نے تائید کی یہ ہی نہیں وزرات خارجہ کے افسران اور وزیر خارجہ کے درمیان یہ پہلا موقعہ تھا کہ فاصلہ سمٹ گیا ہر دورے میں بلاول بھٹو زرداری اپنے افسران کو شاباش دیتے ہوئے نظر آئے ان کے دور کے کئی ان گنت کارنامے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک ایسے وقت میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو استحکام دیا کہ جب دنیا میں روس اور امریکہ کے درمیان ایک بار پھر سرد جنگ جاری تھی اور پاکستان پر کسی ایک کھلاڑی کے ساتھ کھڑے ہونے پر زور دیا جارہا تھا لیکن پاکستان اور پاکستان کے وزیر خارجہ نے ثابت کیا کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں اور ہم اپنی خارجہ پالیسی کا تعین کرنے میں بھی آزاد ہیں، یقینی طور پر اگر بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم بنتے ہیں تو وہ بحیثیت پاکستان کے وزیر اعظم اس ملک کی خارجہ پالیسی کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں