تقسیم ہند کے بعد، پاکستان کے جمہور کو 23 برس بعد پہلے جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ 1970ء کے الیکشن کا نتیجہ تھا۔ عوامی لیگ نے 167 نشستیں جبکہ پیپلز پارٹی نے صرف 86 نشستیں جیتی۔پیپلز پارٹی نے 61 لاکھ 48 ہزار ووٹ حاصل کیے اس کے مقابلے پر عوامی لیگ نے ایک کرور 29 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ بھٹو کی سیاسی نشوونما آمر جنرل ایوب کی گود میں ہوئی تھی اس لیے ان کی سرشت میں آمرانہ رویہ تھا، گویا عوامی لیگ کو جمہوری اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
پاکستان پر امریکی سیاسی کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ بنگال کو الگ کر دیا جائے چوں کہ شیخ مجیب اور عوامی لیگ ردّ مقتدرہ کی سیاست کر رہے تھے۔ ردّ مقتدرہ کا یقینی مطلب یہی تھا کہ امریکا سیاسی راستے سے پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط نہیں رکھ پائے گا۔ چنانچہ، جنرل یحییٰ خان اور بھٹو نے مل کر پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، جب بنگلہ دیش بن رہا تھا اُس وقت شیخ مجیب پاکستان جیل میں تھا۔ شیخ مجیب کو جنرل ایوب نے 1958ء سے 1961ء تک تین سال جیل میں رکھا، پھر 1966ء سے 1969ء تک جیل میں قید رکھا گیا۔ جب ڈھاکہ میں فوجی آپریشن ہو رہا تھا اُس وقت بھی شیخ مجیب الرحمن سنگین غداری کے مقدمہ میں پاکستان قید تھا۔
بنگلہ دیش بن گیا، اب بھٹو 16 دسمبر 1971ء کے بعد پاکستان کا صدر کیسے بنا؟ پیپلز پارٹی تو اکثریت جمہور کی نمائندہ جماعت نہیں تھی۔ فوجی آپریشن کے دوران، بھٹو امریکا تھا اور اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں ہورہی تھیں۔ بھٹو 18 دسمبر کو، امریکا سے پاکستان پہنچے اور 20 دسمبر کو جنرل یحییٰ سے اقتدار بھٹو کو منتقل ہوگیا اور بھٹو، صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔
یہ واقعہ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے بھٹو امریکا سے آشیر باد لے کر وطن واپس پہنچے اورفوج نے امریکی حکم پر اقتدار بھٹو کے سپرد کر دیا۔ بھٹو نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے ساتھ ون آن ون 25 منٹ ملاقات کی جبکہ اس سے قبل بھٹو امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ولیم راجر کے ساتھ 45 منٹ کی ملاقات کر چکے تھے۔ اس وقت بھٹو ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے عہدے پر تعینات تھے، اس ملاقات کا احوال نیو یارک ٹائمز اور امریکی ایمبیسی کے ٹیلی گرام میں بھی موجود ہے۔
بھٹو کومنتقل ہونے والا یہ غیر قانونی، غیر جمہوری اور غیر آئینی اقتدار تھا لیکن اس آمرانہ اقتدار کے دوران ہی پاکستان کا 1973ء کا آئین منظور ہوتا ہے۔ کیا یہ آئین عوامی جمہوری آئین تھا؟ یا یہ دستور آمریت کی کھوکھ سے جنم لینے اور سقوط ڈھاکہ کی پیداوار تھا؟
الیکشن میں شکست کے بعد، پیپلز پارٹی اور بھٹو کے پاس کوئی آئینی جواز نہیں تھا کہ وہ اقتدار سنبھالتے۔ اس غیر آئینی، غیر جمہوری و غیرقانونی حاکموں نے 25 رکنی دستوری کمیٹی بنا کر پاکستان کا آئین بنا دیا اور عوام پر مسلط کر دیا گیا۔ آئین بنتے ہی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ بھٹو کو آئین بنانے کا پبلک مینڈیٹ کس نے دیا تھا؟
آئین ساز اسمبلی تو 1956ء میں توڑ دی گئی تھی پھر سقوط ڈھاکہ کے بعد، تشکیل دی جانے والی بھٹو حکومت کا آئینی جواز کیسے پیدا ہوا؟ آئین تشکیل دینا تو آئین ساز اسمبلی کا کام ہوتا ہے اور کیا 1973ء کا آئین،دستور ساز اسمبلی نے تشکیل دیا تھا؟ کیا پاکستان کا آئین از سر نو مرتب کرنے کیلئے دستور ساز اسمبلی تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ہے؟ یہ جمہور پاکستان کو دستور ساز اور قانون ساز اسمبلی کے درمیان فرق کون بتائے گا؟
آمریت کی کوکھ سے جنم ہونے کا نتیجہ ہے کہ آج ریاست اور شہری کا تعلق ایسے ہی ہے جیسے کالونیل عہد میں نوآبادیاتی طاقت کا عوام کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اکمل سومرو لاہور