عطا الحق قاسمی

ایک تھا بھاٹی گیٹ

بہت دنوں سے میں اندرون شہر نہیں گیا تھا اور نہ میں نے ویگن میں سواری کی تھی اور نہ میں لاہور کی سڑکوں پر پیدل چلا تھا۔ چنانچہ مجھے اپنی زندگی میں کوئی کمی سی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی اور بھاٹی گیٹ جانےکیلئے ویگن کے انتظار میں اسٹاپ پر کھڑا ہوگیا۔ کچھ ہی دیر بعد دھوپ کی شدت سے میرا چہرہ جھلسنا شروع ہوگیا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میں پسینے میں شرابور ہو چکا ہوں ،میں نے اپنے دائیں بائیں نگاہ ڈالی تو چودہ پندرہ مسافروں کو جن میں خواتین اوربچےبھی تھے اسی کیفیت میں مبتلا دیکھا اس دوران تین چار کاریں ویگن اسٹاپ کے قریب پہنچ کر آہستہ ہوئیں ان میں بیٹھے ہوئے نوجوانوں بلکہ بزرگوں نے بھی اسٹاپ پر کھڑی خواتین کو اشارے کئے اور پھر مثبت جواب نہ ملنےپر آگے بڑھ گئے۔ خدا خدا کرکے ویگن آئی۔ یہ ویگن غالباً ’’تازہ دم‘‘ تھی کیونکہ اس میں کوئی مسافر سوار نہ تھا۔ کنڈیکٹر نے ایک ایک کرکے مسافروں کو اس میں بھرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد آٹھ مسافروں کی اس ویگن میں لگی اضافی نشستوں کی بدولت پندرہ مسافراس میں سما گئے۔ ویگن ابھی چند قدم ہی چلی تھی کہ ڈرائیور نے اچانک بریک لگائی جس کے نتیجے میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے مسافر اس ’’سیفٹی لاک‘‘ کی وجہ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ٹکراتے بچے جو مسافروں کی ٹانگیں ایک دوسرے میں پھنسی ہونے کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ ڈرائیور نے بریک دو اسامیوں یعنی مسافروں کو دیکھ کر لگائی تھی۔ کنڈیکٹر نے آواز لگائی ’’ساتھ ساتھ ہو جائو‘‘ چنانچہ سب مسافر ایک دوسرے کے مزید ساتھ ساتھ ہوگئے وہ اتنے ساتھ ہو چکے تھے کہ اگر اس وقت ان میں سے کسی کو اللہ کی طرف سے بلاوا آتا تو بلاوا لانے والا غلطی سے کسی دوسرے سے ’’نوٹس‘‘ کی تعمیل کرسکتا تھا۔ بھاٹی دروازےتک پہنچتے پہنچتے مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا چنانچہ میرا خیال تھا کہ اب مجھے کرین ہی سے باہر نکالا جا سکے گا مگر کنڈیکٹر نے مجھے اس ہجوم بلا سے یوں نکال کر باہر پھینکا جیسے دودھ میںسے مکھی نکال کر پھینکی جاتی ہے۔ ویسے بھی اس دوران میں انسان سے مکھی کی جون میں آ چکا تھا اور مجھے خودسے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔
میں بہت عرصے بعد بھاٹی دروازے آیا تھا پہلے یہاں رونق ہوتی تھی اب رش تھا۔ کاریں، موٹرسائیکل، گدھا گاڑیاں،پیدل سوار ایک دوسرے میں یوں گڈمڈ تھے جیسے ڈور میں گنجل پڑ گئی ہو۔اس کے علاوہ چیختے چلاتے ہارن تھے اور لوگوں کے کھچے ہوئے چہرے تھے۔ بھاٹی دروازے کے صدیوں پرانے مکان یہ منظر اداس نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں اپنے پیدل چلنے والے نظر نہیں آ رہے تھے۔ یہ کوئی اور ہی کلچر تھا جس میں ان کیلئے کوئی جگہ ہی نہیںتھی۔ میں بھی چلتے چلتے ادھر کا رخ کرلیتا تھا جدھر مجھے کوئی خالی جگہ نظر آتی تھی اور یوں زگ زیگ بناتا وہ بھاٹی دروازہ تلاش کر رہا تھا جسے دیکھنےکیلئے میں آیا تھا۔ البتہ کہیں کہیں اس کی جھلک دکھائی دے جاتی تھی۔ میں نے سڑک پر سے گزرتے ہوئے ایک خمیدہ کمر، سفید ریش بزرگ کو دیکھا جو ہاتھ میں ڈول پکڑے غالباً گھر سے دہی خریدنے نکلا تھا۔ اس کی نظر اپنے ایک ہمدم دیرینہ پرپڑی جو اسی کی طرح ضعیف تھا اور جس کے چہرے پر اس کی طرح سفید داڑھی تھی تو وہ والہانہ انداز میں اس کی طرف بڑھا اور پھر دونوں نے اسی والہانہ انداز میں ایک دوسرے کو جن ’’خطابات‘‘ سے نوازااس نے تصنع اور بناوٹ کا وہ ماحول کچھ دیر کیلئے میری نظروں سے اوجھل کر دیا جس نے بھاٹی دروازے کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا ایک پہلوان اپنی قمیض کاندھوں پر رکھے اور ایک ہاتھ سے دھوتی کو گھٹنوں سے اوپر تک اٹھائے خراماں چلا جارہا تھا ایک ریڑھی پر کانجی پینے والوں کا ہجوم تھا اور ایک حجام کی دکان پر پہلوانوں کی تصویروں والے کیلنڈر بھی نظر آئے جنہوں نے اپنے کاندھوں پر گرز رکھے ہوئے تھے۔ ایک مسجد کے باہر دو تین بچیاں اپنے بھائی بہنوں کوگود میں اٹھائے آرہی تھیں اور نماز پڑھ کر مسجد سے نکلنے والے نمازیوںسے انہیں ’’دم‘‘ کرا رہی تھیں، ایک موٹا سا شخص بکرے کی رسی تھامے چلا جا رہاتھا اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جو پہلے بھیڈو کو اشتعال دلاتا تھا اور پھر اس کے ماتھے پر ماتھا رکھ دیتا تھا تاکہ وہ اسے ٹکر مارے مگر رش کی وجہ سے اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی،تاہم ان مناظر سے میری وہ خواہش ضرور پوری ہو رہی تھی جو مجھے یہاں کھینچ لائی تھی۔
میں ایک پنساری کی دکان سے اندر جانے والی ایک تنگ گلی میں داخل ہوگیا یہ گلی اتنی تنگ تھی کہ کہیں کہیں ایک خاص اینگل سے اس میں سے گزرنا پڑتا تھا یہاں مکان ایک دوسرے پر جھکے ہوئے تھے اور ان مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔ گلی میں پانی اور گیس کے پائپ ایک دوسرے سے الجھے ہوئے تھے، ایک طرف نالی بہہ رہی تھی اور یوں پیدل چلنا یہاںبھی مشکل تھا جب سامنے سے کوئی دوسرا شخص آتا نظر آتا تو دیوار کے ساتھ چپک جانا پڑتا تھا تاکہ اسے گزرنے کا رستہ مل سکے یہاں آمنے سامنے والے مکانوں کی کھڑیوں میں سے لڑکیاں ایک دوسرے سے گپ شپ کر رہی تھیں۔ ان دونوں مکانوں کے درمیان فاصلہ اتنا کم تھا کہ ذرا سی کوشش کے نتیجے میں بائی ایئر ایک دوسرے کی طرف جایا جاسکتا تھا،مگر سب گلیاں اتنی تنگ نہیں تھیں کئی ایک قدرے کشادہ بھی تھیں اور دل تو ان لوگوں سے کہیں زیادہ کشادہ تھے جن کے گھروں کے فاصلے اور دلوںکے فاصلے ماپے نہیں جاسکتے۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کی سات پشتوں سے واقف تھے۔ چنانچہ کوئی چھچھورا شخص زیادہ عرصے تک ان کے درمیان نہیں رہ سکتا تھا۔ یہاں کے بدمعاش بھی اپنے محلے میں نظریں نیچی کرکےگزرتے تھے۔میں نے محسوس کیا کہ یہ لاہور جو زندگی سے قریب تر ہے اب بھی کافی حد تک اچھی قدروں اور ناکافی سہولتوں کے ساتھ اس لاہور میں رہتا ہے جس میں قدریں کمزور پڑ گئی ہیں۔ میں ’’آب و ہوا‘‘ کی تبدیلی کیلئے اس لاہور میں آیا تھا مگر اب واپس اپنےسہولتوں والے علاقے میں جا رہا تھا کہ قدروں (VALUES) کی اونچ نیچ کے ساتھ تو میں نے سمجھوتہ کرلیا ہے مگر سہولتوں کے حوالے سے مجھ سے سمجھوتہ نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں