Muhammad mehdi

اسلام سے پہلے

ڈی لیسی اولیری نے قبل از اسلام کی عرب تاریخ پر ایک کمال کتاب تصنیف کی ہے جس کا ترجمہ’’اسلام سے پہلے‘‘کے عنوان سے ہوا ہے ۔ وہ عرب سرحدی علاقے نجران کی تاریخ کے حوالے سے ظہور اسلام سے کچھ قبل کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے کہ نجران میں ایک قوم پرستانہ بغاوت ہوئی ۔ حاکم مسیحی تھے جبکہ باغی یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ۔ بغاوت کو کامیاب کرنے کی غرض سے زوالنواس ،جو یہودی تھا ،نے اس میں مسیحی یہودی اختلاف کا بھرپور استعمال کیا ، وہ کامیاب اورنجران پر قابض ہو گیا تو اس نے نجران کے مسیحیوں کے سامنے دو راستے رکھ دیے اول یہ کہ وہ مسیحیت کو ترک کر کے یہودی بن جائیں، دوئم اس نے گہری کھائی کھدوا کر اس میں آگ روشن کردی اور مسیحیوں کو اس کے گرد بٹھا دیا کہ جو مسیحیت ترک نہیں کرے گا اس کو اس آگ میں پھینک دیا جائے گا اور بہت ساروں نے آگ میں جل مرنے کا ہی راستہ اختیار کیا ۔ میری یاد داشت میں یہ واقعہ سانحہ جڑانوالہ کے دن دوبارہ تازہ ہو گیا ، مجھ کو یہ بھی علم تھا کہ ایسےواقعات کے اصل منصوبہ ساز مذہب کیلئے نہیں بلکہ اپنے مقاصد کیلئے مذہب کو استعمال کرتے ہیں ۔ اس پرمزید حیرت ہوئی کہ اے سی جڑانوالہ کے دفتر کو جلا دیا گیا حالاں کہ امن و امان سے تو اس دفتر کا اب کوئی براہ راست تعلق ہی نہیں جو اس پر غصہ نکلتا ۔ ذرا سی تحقیق کی تو تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی سامنے آیا اور اس پر مکمل غیر جانبداری سے تفتیش ہونی چاہئے کہ کہیں یہی تو حقیقت نہیں ، اور دوسرا رخ یہ ہے کہ اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر جڑانوالہ شوکت مسیح ہیں۔ انہوں نے گندم کی خریداری اور دیگر معاملات پر بہت سخت پیشہ ورانہ انداز اختیار کیا ہوا تھا جوزمیندار مافیا کے ایک طاقت ور گروہ کو کسی صورت ہضم نہیں ہو رہا تھا لہٰذا ان کو سبق سکھانے کی غرض سے یہ سارا سانحہ وقوع پذیر ہو گیا ۔ میں دنیا بھر میں جگ ہنسائی کی بات نہیں کرونگا کیوں کہ اگر دنیا کو علم نہ بھی ہو تو ظلم ظلم ہی رہتا ہے اور اس کی بیخ کنی کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ اس سانحہ کا ایک اورپہلو بھی ہے جو اجتمائی قومی نفسیات سے جڑا ہوا ہے، یہ کہ آخر لمحوں میں اتنی لاقانونیت کیوں ننگا ناچ پیش کرنے لگتی ہے ۔ یہ سب کیوں وقوع پذیر ہو جاتا ہے ؟ اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کی نفسیات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بطور پاکستانی قوم ہم سب اسی نوعیت کے رويے کا جگہ جگہ مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ 2015 میں سانحہ یوحناآباد ہوا ، وحشت و سفاکی کا سامنا مسیحیوں کو کرنا پڑا ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بھی سانحہ ہوا کہ دو مسلمان اس وقت مشتعل ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے جو محنت مزدوری کرنے آئے ہوئے تھے ان کو پکڑ کر سڑک پر زندہ نذر آتش کر دیا گیا ۔ میرے ایک دوست نے سانحہ جڑانوالہ والے روز مجھ کو فون کیا اور واقعہ پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اب ڈیجیٹل عہد ہے ۔ ان شرپسندوں کی شناخت ہو جائے گی تو ان کو سزا بھی ضرور ہو جائے گی ۔ میں نے کہا کہ یہ کچھ عرصہ شاید مقدمات کا سامنا ضرور کریں مگر انجام کا کچھ پتہ نہیں ۔ اس کی آواز میں حیرت تھی اس کی حیرت کو رفع کرنے کی غرض سے کہا کہ سانحہ یوحناآباد کی بھی سب تصاویر ،ویڈیوز تھیں ، انسانوں کو زندہ آگ کے سپرد کرتے ہوئے چہرے پہچان لئے گئے تھے مگر پھر سب چھوٹ گئے لہٰذا یہ سب بھی شایدچھوٹ جائیں کیوں کہ موجودہ قوانین کے نفاذ کا دم خم کم ہی دکھائی دیتا ہے ۔ ان دونوں مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک ہم اس کو مذہبی تفریق سے دیکھتے رہیں گے اس وقت تک ہم اصل مسئلہ کی جڑ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اگر ہم اس انتہا پسند رویے کا حقیقی معنوں میں تدارک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ شرپسند یہ سب کرتے ہوئے ڈرتے کیوں نہیں اور اس میں ہمیں مذہب کی بنیاد پر فرق رکھنے کی بجائے سب کو ایک آنکھ سے دیکھنا ہوگا ۔ ایک تو اس کے پیچھے کم و بیش کوئی معاشی و سیاسی مقصد ہی ہوتا ہے اور دوسرا شرپسندوں کو یقین ہوتا ہے کہ ان کو سزا نہیں ہو سکتی، اگر ایسا یقین نہ ہوتا تو سوشل میڈیا انتہا پسند تقاریر سے لبالب بھرا ہوا نہ ہوتا ۔ اگر سانحہ جڑانوالہ کو ہی ایک ٹیسٹ کیس بنا لیا جائے اور اس شخص سے سزا کا آغاز کرکے جس کسی نے بھی قرآن کی بے حرمتی کی ، مذہبی و نجی املاک کو نذر آتش کیا ، لوٹ لیا،اس کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو آئندہ ان واقعات کو روکنے میں بہت مدد مل سکتی ہے ورنہ اس وقت تو حقیقت یہ ہے کہ طاقت ور نے گویا کھائی کھود کر آگ جلائی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ذہنی فكری عملی طور پر اسلام سے قبل کے عہد میں جی رہے ہیں ؟ ہمیں معاملات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔ تاہم اس ضمن میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں