اِس سدھائے ہوئے حیوان سے ڈر لگتا ہے
سچ تو یہ ہے، مجھے انسان سے ڈر لگتا ہے
تم نے قاتل کو بھی جنت کی بشارت دے دی
مجھ کو واعظ ترے ایمان سے ڈر لگتا ہے
کوئی ڈرتا نہیں لوگوں کی برائی کرکے
سب کو اپنے ہی گریبان سے ڈر لگتا ہے
اِک عجب خوف اُمڈ آیا ہے بام و در سے
گھر کو اپنے ہی نگہبان سے ڈر لگتا ہے
پہلے وقتوں میں بلائوں سے ڈرا کرتا تھا
اب کہ انسان کو انسان سے ڈر لگتا ہے
مرے مولاؑ ترا فرمان سنا ہے جب سے
چاہے خود پہ بھی ہو ،احسان سے ڈرلگتا ہے
پوچھنا یہ تھا کہ تم مجھ سے گریزاں کیوں ہو
کیا سمندر کو بھی طوفان سے ڈر لگتا ہے؟
وہ دل و جان سے مجھ سے تھا محبت کرتا
اب اُسے مجھ سے دل و جان سے ڈر لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعظم توقیر