yasir peerzada

فلسطینیوں کی مسلح جدو جہد اور غامدی صاحب

پہلا ،منظر :تاریخ ہے 19 اپریل 1943 اور مقام ہے وارسا، پولینڈ۔جرمن افواج پولینڈ پر قبضہ کرچکی ہیں اور وارساشہر کے یہودی اپنی بستیوں (Ghettos)میں مَحبوس ہوکر رہ گئےہیں ۔یہ وہ دن تھا جب جرمن فوج اور پولیس یہودی بستی میں اِس نیت سے داخل ہوئی کہ یہودیوں کو وہاں سےنکال باہر کیا جائے گا، تاہم بستی کے اندر موجود یہودیوں نے جرمنوں کے خلاف مسلح مزاحمت کی، یہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی سب سے بڑی بغاوت تھی۔تاہم اِس بغاوت کا وہی نتیجہ نکلا جو عموماً ایسی بغاوتوں کا نکلتا ہے ، ایک ماہ کے اندر ہی جرمنوں نے بغاوت کو بے رحمی سے کچل دیا اور یہودی بستی میں زندہ بچ جانے والوں کو پولینڈ سے باہر قائم کردہ حراستی کیمپوں اورعقوبت خانوں میںمنتقل کر دیا۔اِس پورے عمل میں لگ بھگ سات ہزار یہودی مارے گئےجبکہ لڑائی کے اختتام پر تقریباً اتنی ہی تعداد میںیہودیوں کو پولیس نے دھرلیااور پھرانہیں شہر سے باہر لے جاکر قتل کردیا۔یعنی کُل ملا کر تقریباً تیرہ سے چودہ ہزار لوگ مارے گئے جن میں سے نصف کو جرمن پولیس نے زندہ جلایا یا پھر وہ دَم گھُٹنے سے مرگئے ۔ یہی نہیں بلکہ اِس بغاوت کے بعد جرمن خفیہ پولیس نے مزیدبیالیس ہزار یہودیوں کو پکڑ کرجبری مشقت کے کیمپوں اور حراستی مراکز میں بھیج دیاجہاں اُن میں سے زیادہ تر لوگوں کو دو دن تک مسلسل گولیاں مار کر ختم کردیا گیا۔
دوسرا منظر: وقت ہے اکیسویں صدی کا اور مقام ہے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے چند علاقے۔اسرائیلی فوج گزشتہ پچھتر برس سے فلسطینی علاقوں پر قابض ہے اور فلسطینی اپنے ہی علاقوں میں محبوس ہیں (Ghettos)۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے OCHAکے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پندرہ برس میں اسرائیلی فوج نے6407 فلسطینیوں کو شہید کیا جبکہ فلسطینیوں نے اِس دوران 308 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا۔یاد رہے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیلی قبضہ سراسر ناجائز اور غیر قانونی ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے تحت (جو نمیبیا کے ضمن میں منظور کی گئی تھی) ، محکوم عوام کو قابض فوج کے خلاف ہر طرح کی مزاحمت کرنے کا پورا حق حاصل ہے ، بشمول مسلح جدو جہد۔فلسطینیوں کا اپنے علاقوں میں وہی حال ہے جو یہودیوں کا نازی جرمنی میں تھا ، اسرائیلی فوج کے پاس لائسنس ٹو کِل ہے ، وہ کسی بھی فلسطینی کو جب چاہیں ماردیں ، اُس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی ، ثبوت کے طور پر ملاحظہ ہو ںوہ ہزاروں اموات جو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہوئیں اور جن کی تفصیل اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
یہ دو منظر نامے لکھنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ 8 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا ، اِس حملے کے نتیجے میں تقریباً سات سو اسرائیلی ہلاک ہوئے ، اِس حملے کے بعد پوری مغربی دنیا بشمول امریکہ، برطانیہ ،یورپی یونین، سب سینہ تان کے اسرائیل کے ساتھ یوں کھڑے ہوگئے جیسے ہولو کاسٹ کے بعد اِس صدی کا سب سے بڑا ظلم ہوگیا ہو۔ جواب میں اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری کی جو تا حال جاری ہے، غزہ کی رہائشی عمارتیں تباہ کر دی گئی ہیں، ایک ہزار کے قریب عورتیں ،بچے اور مرد مارے جا چکے ہیں،اور اسرائیلی وزیر دفاع نے ببانگ دہل کہا ہے کہ غزہ کو خوراک ، بجلی اور پانی کی فراہمی بندکردی جائے گی کیونکہ وہاں انسانوں کی شکل میں جانور بستے ہیں اور اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ یاد رہے کہ غزہ کی بیس لاکھ آبادی میں دس لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ادھر مغربی میڈیا پر بھی شامِ غریباں برپا ہے،سی این این کی کرسٹیان امن پور اور فرید زکریا ،فلسطینیوں کے نمائندوں کو اپنے شو میں مدعو کر کے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ حماس کی بربریت کی مذمت کریں گےیا نہیں کیونکہ حماس کے حملوں میں عورتیں اور بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں؟اِس کے جواب میں مختلف فلسطینی رہنماؤں نے جو گفتگو کی اُس نے امن پور اور زکریا دونوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ اِن رہنماؤں نے بتایا کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ حماس کی مذمت کی جائے یا نہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوا یا اِس کے پیچھے ظلم کی پوری تاریخ ہے ، اگر کسی کی مذمت کرنی چاہیے تو وہ مشرق وسطیٰ کی نام نہاد اسرائیلی جمہوریت ہے،حماس فلسطینی حکومت نہیں ہے ،جبکہ دوسری جانب اسرائیلی حکومت ہے جو اپنی فوج کو نہتے شہریوں کو مارنے کا حکم دے رہی ہے،اِن دونوں کا آپس میں کوئی موازنہ ہی نہیں ، ایک جانب قابض فوج ہے دوسری طرف محکوم عوام، آپ جیسے میڈیا نمائندوں نے سینکڑوں مرتبہ اسرائیلی حکام کے انٹرویو کیے ہوں گے ، اور سینکڑوں مرتبہ آپ نے اسرائیلی فوج کو جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے براہ راست ٹی وی پر دیکھا ہوگا، کیاآپ نے ایک مرتبہ بھی اُ ن سےکہا کہ تم لوگ اپنی حرکتوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ظاہر ہے کہ آپ نے کبھی یہ جرات نہیں کی ہوگی جبکہ مجھ سے آپ بار بار یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں حماس کی مذمت نہیں کرتاجبکہ یہ سوال ہی مسئلے کی اصل جڑ ہے….!برطانیہ میں فلسطینی مشن کے سربراہ حُسام زوملوٹ نے یہ گفتگو بی بی سی کے ایک پروگرام میں کی ، اللہ کو جان دینی ہے ، میں نے اِس سے زیادہ مدلل گفتگو کبھی نہیں سنی، دنیا میں جو شخص بھی اسرائیل کا حامی ہے ، اسے ایک مرتبہ یہ گفتگو ضرور سننی چاہیے۔
سچ پوچھیں تو مجھے مغربی حکومتوں اور میڈیا کے رویے پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی، مجھے گلہ تواپنوں سے ہے ، مثلاًجاوید غامدی صاحب، جن کامیں بے حد احترام کرتا ہوں، نے فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کو غلط قرار دے کر کہا کہ انہیں صرف سیاسی جدو جہد کا حق حاصل ہے ۔اُن کے دلائل کی عمارت اِس بنیاد پر کھڑی ہے کہ مسلح جدو جہد سے انہیں ماضی میں بھی کچھ حاصل نہیں ہوااور اب بھی زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہی ہوگا۔ میرا غامدی صاحب سے سوال یہ ہے کہ فلسطینیوں نے سیاسی اور قانونی جدو جہد کے تمام طریقے آزما کر دیکھ لیے ، 2018 میں انہوں نے پُر امن احتجاج کیا، اُس سال اسرائیل نے تین سو بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا۔ جس قوم کی زمین پر اسرائیلی ریاست نے بزور طاقت قبضہ کر رکھا ہو ، انہیں اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہو ، آئے دن اُن کے بچے مارے جاتے ہوں، اُس قوم کے پاس کون سا ایسا طریقہ ہے جس سے وہ اسرائیلی ظلم و ستم سے نجات حاصل کر پائیں گے؟ ہاں، حماس کے حملوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کا زیادہ نقصان ہوگا،مگر یہ نقصان تو کوئی حملہ نہ کرنے کی صورت میں بھی ہورہا تھا۔ وارسا کے جس گھیٹو میں یہودیوں نے نازی جرمنی کے خلاف بغاوت کی تھی ،انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اِس کا انجام کیاہوگا، مگر انہوں نے کہا کہ کم از کم اپنی موت کے وقت کا تعین وہ خود کریں گے۔فلسطینی بھی یہی کر رہے ہیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں