Armeen fiyaz

تم مسلماں ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے؟

آج پھر ایک بار 3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں ایک بے قصور جان کو بے دردی سے مارنے کا واقعہ نظرسے گزر، کہ جب دنیا نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لفظ ’’اقلیتوں کا تحفظ‘‘ صرف تقاریر اور کتابوں میں استعمال ہونے کے لیے رہ گیا ہے کیونکہ ایک ہجوم نے سری لنکن مینجر پر قران پاک کی مقدس آیات کی بے حرمتی کا الزام لگا کر اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس کے جسم کو اگ لگا دی۔ اور اس کی میت کے نام پر اس کے گھر تابوت میں بند صرف اس کی خاک پہنچی۔
آج پھر 16 اگست 2023 کو ایک شخص نے جڑانوالا سینما چوک کہ پاس قران مجید کے کچھ بکھرے ہوئے اوراق دیکھے جن پر مبینہ طور پر کچھ نازیبہ جملے درج تھے اور ساتھ ہی ایک کاغذ پر مسلمانوں کو گالیاں دی گئی تھیں اور اس پر توہین آمیز جملے لکھے تھے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ شر پسندی پھیلانے والے نے اس پر اپنا نام اور اپنی تصویر بھی چسپاں کر رکھی تھی۔ لوگوں نے اوراق اکٹھے کرکے قریبی مسجد امام قاری یونس کو بلوایا اور معاملہ پولیس کے حوالے کیا۔ جس نے ملزم کو شناخت کر کے گرفتار کر لیا۔ لیکن اس واقعے نے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو بھڑکایا اور وہ لوگ ڈنڈے، لاٹھیاں اور پتھر اٹھائے مسیحی برادری کی بستی اور چرچ کی جانب بڑھ گئے۔ ان نام نہاد مسلمانوں نے تقریبا 4 گرجہ گھر اور تقریباً 40 کے قریب غریب عیسائیوں کے گھروں کو جلا دیے۔ بات یہیں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ مشتعل ہجوم نے مسیحی قبرستان کو بھی نہ چھوڑا اور اس کے چار دیواری گرا کر قبروں کو پاؤں سے روند کر ان کی بے حرمتی کی۔ پولیس کے پہنچنے سے پہلے توڑ پھوڑ مکمل کر لی گئی تھی اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ شرپسند شخص جس کی وجہ سے بہت سے بے گناہ اور معصوم عیسائیوں کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملہ ہوا اسے پکڑنا چاہیے تھا یا بے گناہوں کو بے گھر کر دینا چاہیے تھا؟
یہ وہ مسلمان ہیں جو ایمان مصفل اور ایمان مجمل پڑھ کر اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ تمام فرشتوں، پیغمبروں اور اللہ کی طرف سے نازل کی گئی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود ہجوم نے چرچ میں موجود انجیل کی بے حرمتی کی۔ مسلمان ہو کر کسی مذہب کی توہین کرنا شر کی علامت ہے اور یہ بے حرمتی اور پامالی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ایک باعلم اور باعمل مسلمان اس عمل کی کبھی نمائیندگی نہیں کرتا ہے۔ باخدا دین اسلام نے کبھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو جلانے کا حکم نہیں دیا بلکہ ہم تو اس نبیﷺ کے امتی ہیں کہ جس نے طائف کے لوگوں کی بدتمیزی کا جواب اپنے حسن اخلاق سے دیا۔
تیری امت نے مرے گھر کی اہانت کی ہے
ابنِ مریم نے محمد ص سے شکایت کی ہے
یہاں میں نبی کریم ﷺ کا اہل کتاب کے ساتھ حسنِ سلوک کا واقعہ درج کرتی چلوں کہ جب نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ آیا، وفد میں 60 افراد تھے۔ جب وہ مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت حضورﷺ عصر کی نماز ادا کر چکے تھے۔ یمنی کپڑوں میں ملبوس، قبائیں اور چادریں لپٹے ہوئے، کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں دیکھ کر کہا کہ ہم نے ان جیسا وفد نہیں دیکھا۔ اسی دوران ان کی عبادت کا وقت ہو گیا، تو نبی ﷺ نے انھیں پاک مقامات میں سے ایک مقام مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی، وہ اٹھے اور مسجد نبوی میں عبادت کرنے لگے۔ حضورﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا انہیں چھوڑ دو، انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے اپنی عبادت کی۔
ز کردہ خیش حیرانم، سیاہ شد روز عصیانم
پشیمانم، پشیمانم، پشیماں، یا رسول اللہ ۖ

تو ہمارے مذہب میں تو صرف محبت و اخلاق کا درس ہے۔ اسلام میں اقلیتوں اور غیر مسلموں کے حقوق ہیں لیکن توہین مذہب کے کوئی حقوق نہیں ہیں اس کی صرف سزا ہے لیکن مسلمانوں نے توہین مذہب کا جواب توہین مذہب سے دے کر پوری دنیا کو یہ دکھا دیا کہ ہم کتنی اشتعال انگیز قوم ہیں۔ اگر یہ ایک شرارت یا سازش تھی تو شر پسندی کو فروغ دینے والوں نے من چاہے نتائج حاصل کر لیے ہیں۔
بات اگر توہین مذہب کی ہی ہے تو جب فرانس اور ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تب یہ مسلمانوں کی غیرت ایمانی کہاں سو رہی تھی؟ تب ان کو غیر مسلموں کے گھروں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ تب کیوں یہ خاموش رہے؟ آج اپنی طاقت کا ڈھونگ صرف اس لیے رچا رہے ہیں کہ بے گھر ہونے والے لوگوں کا تعلق ان کے ملک کی اقلیتی عوام سے تھا؟ ہمارے ملک میں آگر کوئی شخص توہین مذہب کرے، توہین قرآن کرے یا توہین ناموس رسالت کرے تو اس کے لیے قوانین موجود ہیں۔ عدالت سے رجوع کرنا عدالتی کارروائی کا انتظار کرنا ایک بہتر طریقہ تھا بجائے اس کے کہ ہم قانون کو ہاتھ میں لے لیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے اندر سے انسانیت، ایمان، اخلاقیات، سوچ، نظریہ، احساس، سچائی، ایمان داری، محنت اور صبر سب کچھ ختم ہو چکا ہے جس سے ایک قوم پرامن اور کامیاب معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
رحمتِ سیدِ لولاک ﷺ پہ کامل ایمان
امتِ سیدِ لولاک ﷺ سے خوف آتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں