قدیمی تابوت امام حسن مجتبیٰ موچی دروازہ

یہ تصویر لاہور میں برآمد ہونے والی اٹھائیس صفر کی مرکزی قدیمی زیارت شبیہ تابوت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ہے۔ غالبا تصویر کچھ برس قبل اس وقت لی گئی ہے جب زیارت مسجد وزیر خان کے علاقے میں موجود تھی۔ اِس تصویر کو دیکھ کر بے اختیار وہ وقت یاد آتا ہے جب مدینہ میں امام حسن علیہ السلام کا جنازہ اپنے نانا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضے سے واپس گیا تھا۔

شب عاشور نثار حویلی سے برآمد ہونے والے مرکزی جلوس کے بعد یہ وہ زیارت ہے جسے اگر لاہور کہ عزاداری کا اختصاص کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اندرون موچی دروازے کے محلہ شیعاں کشمیریاں کی مقبول امام بارگاہ حسینیہ ہال سے برآمد ہونے والی یہ زیارت اٹھائیس صفر کی شب اسی جگہ موجود امام بارگاہ باب حسن علیہ السلام میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ مجھے انسانوں کی تعداد گننا نہیں آتی، بس اتنا جانتا ہوں کہ اس جلوس کے اختتامی لمحات کے دوران میں انسانوں کے سمندر کے درمیان اکثر کسی تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا تھا۔ نظریں اس تابوت پر جمی ہوتی تھیں جو جیسے ہوا میں معلق کبھی دائیں اور بائیں تیرتا ہوا آگے بڑھا جاتا تھا۔ جذباتیت، وارفتگی اور مرکزیت اس جلوس کی خاصیت ہے۔ باب حسن علیہ السلام میں اختتام پذیر ہونے کے بعد شبیہ تابوت پر سفید کپڑا(کفن) ڈال کر اسے دوبارہ حسینیہ ہال لے جایا جاتا ہے۔ یہ منظر بے انتہا رقت آمیز ہوتا ہے جس کا پس منظر مدینہ میں گھر واپس آنے والا امام حسن علیہ السلام کا جنازہ ہے، جس پر تیر برسائے گئے تھے۔
۔
علامہ مرزا احمد علی اعلی اللہ مقامہ، متوفی سنہ 1970، اس تاریخی زیارت کے بانی ہیں جنہوں نے سنہ 1928 میں اس جلوس عزا بسلسلہ شہادت امام حسن المجتبی علیہ السلام کی بنیاد رکھی۔ یعنی بفضل خدا و بطفیل اہلیبیت علیھم السلام آٹھ اس دہائی کے آخر تک اس قدیمی اور مقبول زیارت کا آغاز ہوئے سو برس مکمل ہو جائیں گے۔ علامہ مرزا احمد علی کی مرقد حسینیہ ہال میں عین اس جگہ موجود ہے جہاں یہ شبیہ تابوت امام حسن علیہ السلام رکھی جاتی ہے۔

یو ٹیوب اور سوشل میڈیا نے بہت آسانی پیدا کردی ہے۔ اٹھائیس صفر لاہور کے اس جلوس کی کچھ ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں جن میں ذاکر مصائب امام حسن علیہ السلام بیان کررہے ہیں، یہاں تک کہ زیارت برآمد ہوتی ہے جس کے بعد کے مناظر انتہائی رقت آمیز نظر آتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو پر ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے تبصرہ کیا ہے کہ یہ منظر دیکھ کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ ایسا منظر میں نے صرف لکھنو میں دیکھا ہے اور اب لاہور میں۔
۔
زیارت کی برآمدگی سے پہلے مجلس ہوتی ہے اور پھر رات میں محلہ شیعاں میں مجلس اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک زیارت یہاں پہنچ نہیں جاتی۔ یہاں علامہ عرفان حیدر عابدی، مولانا ناصر عباس، شہید محسن نقوی اور مولانا حسن ظفر نقوی مجلس پڑھتے رہے ہیں۔ علامہ عرفان حیدر عابدی نے اپنی زندگی کی یادگار مجالس یہیں پڑھی ہیں۔ زیارت کا محلہ شیعاں میں نمودار ہونا کچھ ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسے مدینہ میں مولا حسن علیہ السلام کا جنازہ تیروں سے ڈھکا واپس گھر آیا ہو۔

اٹھائیس صفر کی یہ زیارت لاہور کے عزاداروں کا فخر ہے۔ شہر بھر سے اور شہر سے باہر سے آئے عزاداروں کو بازووں سے پکڑ پکڑ کر دسترخوان امام حسن علیہ السلام پر نیاز کھانے کی التجا کرنے والے اندرون شہر کے لوگوں کا خلوص ان کی آنکھوں سے جھلکتا ہے۔
۔
زنجیر یا قمہ زنی پر کسی روایتی بحث میں پڑے بغیر بطور مثال یہ لکھنا چاہوں گا کہ لاہور میں زنجیر زنی یا خون کا پرسہ سب سے زیادہ عاشورہ پر دیا جاتا ہے۔ لیکن عاشورہ کے بعد اگر میں نے سب سے زیادہ زنجیر زنی ہوتے دیکھی تو وہ تاریخ اٹھائیس صفر ہے۔ گجر گلی میں ہونے والی زنجیر زنی اس جلوس عزا کی خصوصیت ہے۔ بس فرق یہ ہے روز عاشور ماتم کرنے والا یا حسین علیہ السلام کہہ کر ماتم کرتا ہے اور اٹھائیس صفر کو یا حسن علیہ السلام کہہ کر۔ کچھ خاص نوحے ہیں جو اس دن لگاتار پڑھے جاتے ہیں جن میں سرفہرست “بیگناہ مارا گیا سبط رسول دوسرا ص، وا حسن ع سبز قبا” ہے۔ جبکہ ماتمداروں کی کچھ ٹولیاں “جناب امام حسن ع مار ڈالا، میرے بھائی کو بے خطا مار ڈالا” کہتے ہوئے ایک خاص طرز کا ماتم کرتی نظر آتی ہیں۔ تاریخی ماتمی انجمن نثار پارٹی کے بانی مرحوم بابا ناصر حیدری کا لکھا لازوال نوحہ “پیکاں برس رہے ہیں تابوت پر حسن ع کے” بھی اس جلوس میں پڑھا جانے والے بہت خاص نوحہ ہے۔
۔
آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ میں نے اٹھائیس صفر شہادت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی مناسبت سے برآمد ہونے والے لاہور کے اس مرکزی جلوس کا اتنا تفصیلی ذکر کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اکثر بعض حضرات کو یہ فرماتے دیکھا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ شیعہ امام حسین علیہ السلام کے غم کی طرح امام حسن علیہ السلام کی شہادت پر کسی مجلس یا جلوس کا اہتمام کرتے نظر نہیں آتے؟ سوال کم علمی کی وجہ سے پوچھا جائے یا بغض کی وجہ سے، اس کا جواب بہرحال کار خیر سمجھ کردینا چاہیئے۔ لہذا میں نے صرف لاہور کی اس قدیمی مرکزی زیارت کا مفصل احوال اپنی معلومات اور مشاہدے کے مطابق دیدیا تاکہ کسی کو غلط فہمی نہ رہے کہ شیعہ اس کریم اہلیبیت علیہ السلام کا غم نہیں مناتے جسے مسلمانوں نے اس کے نانا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں دفن نہ ہونے دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں