سورۃ آل عمران ۔ 61
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ۞
🌼ترجمہ🌼
(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ ۔
🌻تفسیر آیت🌻
اس مقام پر ایک مشہور اعتراض کیا جاتا ہے ۔ یہ اعتراض فخر الدین رازی اور بعض دوسرے لوگوں نے کیا ہے ۔ اعتراض یہ ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ”ابنائنا“ ( ہمارے بیٹے ) سے مراد ”حسن (علیه السلام) و حسین (علیه السلام)“ ہوں جب کہ ” ابنائنا “ جمع ہے اور (عربی میں)جمع کا لفظ دو کے لئے نہیں ہوتا ، اس طرح کیسے ممکن ہے” نسآئنا“ہماری عورتیں جو جمع کا لفظ ہے صرف شہزادیٴ اسلام فاطمہ (علیه السلام) کے لئے ہو اور یوں ہی ” انفسنا“ سے صرف علی (علیه السلام) مراد ہوں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہاں جمع کا صیغہ کیو ں آیا ہے ؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ پہلی بات اس ضمن میں یہ ہے کہ بہت سی احادیث ، بہت سے مشہور منابع اور معتبر اسلامی کتب میں جن میں شیعہ سُنی سب شامل ہیں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت ” اہل بیت ؑ“ کے حق میں نازل ہوئی ہے اوران میں تصریح کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ سوائے علی (علیه السلام) ، فاطمہ (علیه السلام) ، حسن (علیه السلام) اور حسین (علیه السلام) کے کسی کو مباہلہ کے لئے نہیں لے گئے ۔ یہ بات آیت کی تفسیر کے لئے خود ایک واضح قرینہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ منجملہ ان قرائن کے جو آیاتِ قرآن کی تفسیر کرتے ہیں ایک سنت اور قطعی شانِ نزول بھی ہے ۔ اس بناء پر مذکورہ اعتراض کی ذمہ داری فقط شیعوں پر نہیں ہے بلکہ تمام علماء اسلام کو اس کا جواب دینا ہو گا ۔
دوسری بات یہ کہ جمع کے صیغہ کا مفرد یا تثنیہ پر اطلاق کوئی نئی بات نہیں ۔ قرآن اور قرآن کے علاوہ ادبیاتِ عرب بلکہ ادبیات غیر عرب میں ایسا کثرت سے دکھائی دیتا ہے ۔
اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک قانون بیان کرتے وقت یا کوئی عہد نامہ لکھتے وقت حکم کلی شکل میں اور جمع کے صیغے کےساتھ آتا ہے ۔ مثلاً کسی عہد نامہ میں یوں لکھا جاتا ہے :۔ اس کے اجرا کے ذمہ دار عہد نامہ پر دستخط کرنے والے اور ان کے بیٹے ہوں گے ۔
حالانکہ ممکن ہے کہ طرفین میں سے ایک طرف صرف ایک یا دو بیٹے ہوں اور ایسا ہونا قانون یا عہد کے صیغہ جمع کے منافی نہیں ہے ۔ خلاصہ یہ کہ مرحلے دو ہیں ۔ایک مرحلہ قرار داد اور دوسرا مرحلہ اجراء، مرحلہٴ قرار داد میں بعض اوقات الفاظ جمع کی صورت میں آتے ہیں تاکہ وہ تمام مصادیق پر منطبق ہوں لیکن مرحلہٴ اجراء میں ممکن ہے مصداق ایک ہی فرد ہو اور ایک فرد کا ہونا مسئلے کے کلی ہونے کی نفی نہیں کرتا ۔
دوسرے لفظو ں میں پیغمبر اکرمؐ نصاریٰ سے طے کی گئی قرار داد کے مطابق ذمہ دار تھے کہ اپنے مخصوص خاندان کے تمام فرزند ، عورتیں اور وہ تمام اشخاص جو آپ کی جان کے بمنزلہ ہو انہیں اپنے ساتھ مباہلہ کے لیے لاتے لیکن ان کا مصداق دو بچوں ، ایک خاتون اور ایک مرد کے سوا کوئی نہ تھا ( غور کیجئے گا ) ۔
آیات قرآن میں ایسے متعدد مواقع ہیں جہاں عبارت میں جمع کا صیغہ آیا ہے لیکن اس کا مصداق کسی جہت سے ایک ہی فرد ہے ۔ مثلاً سورہٴ آل عمران ، اایہ ۱۷۳ میں ہے :
”الّذین قال لھم النّاس انّ النّاس قد جمعوا لکم فاخشوھم “: وہ افراد جنہیں لوگوں نے کہا کہ دشمنوں نے ( تم پر حلمے کے لیے ) اکٹھ کر لیا ہے ، ان سے ڈرو“
مفسرین کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے کہ یہاں ”النّاس “ سے مراد ”نعیم بن مسعود “ ہے جس نے ابو سفیان سے کچھ مال لے رکھا تھا تاکہ مسلمانوں کو مشرکین کی طاقت سے ڈرایا جائے ۔ اسی طرح سورہ آل عمران آیہ ۱۸۱میں ہے :۔
”لقد سمع اللہ قول الّذین قالوآ انّ اللہ فقیر و نحن اغنیاء“۔ خدا نے ان لوگوں کی بات سن لی جو کہتے تھے : خدا فقیر ہے اور ہم تونگر و بے نیاز ہیں ، اسی لئے اُس نے ہم سے زکوٰة کا مطالبہ کیا ہے “۔ مفسرین کی ایک جماعت کی تصریح کے مطابق آیت میں “الّذین” سے مراد”حی بن اخطب” یا “فنحاص” ہے۔ایک اور با ت یہ ہے کہ کبھی مفرد کے لئے جمع کا صیغہ اس کی بزرگی کے اظہار کے لئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے بارے میں ہے ۔ ” انّ ابراہیم کان امّة قانتاً للہ: ابراہیم بارگاہ الٰہی میں خضوع کرنے والی اُمّت تھے ۔
(نحل ۔۱۲۰)
📚تفسیر نمونہ
———————
التماس دعا