7اکتوبر کو حماس نےجس طرح اسرائیل کے اندر گھس کر یہودیوں کو مارا ہے اس پر پوری دنیا ورطہ حیرت میں ہے کہ یہ کیسے ہو گیا ،کوئی اسے اسرائیل کی انٹیلی جنس فیلیر قرار دے رہا ہے تو کوئی صیہونی ریاست کا سکیورٹی کولیپس۔ وہ ملک جو ٹیکنالوجی مہارت میں سپر پاورزسے بھی آگے گردانا جاتا ہے جس کا سوفیسٹیکیٹڈ میزائل سسٹم ”آئرن ڈوم“ پیٹریاٹک میزائلز سے بھی کہیں آگے ترقی یافتہ، حساس یا سمارٹ ہے ۔اور پھر موساد کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ وہ لوگ مہینوں سے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ اس بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے اسرائیلی طرز کا ایک گاؤں بنا کر اس میں حملوں کی پریکٹس کرتے رہے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائی۔ چند گھنٹوں میں پورے اسرائیل کے اندر راکٹس کی جو برسات ہوئی ہے پہلی رپورٹ کے مطابق پانچ ہزار اور دوسری ڈیٹیل کے مطابق ساڑھے سات ہزار راکٹس اسرائیلی آبادیوں پر داغے گئے ، جو مغربی یروشلم اور تل ابیب تک مارکرتے گئےاور جس طرح چھاتہ بردار اترے اورانہی لمحات میں کچھ جہادی سمندری پیراگلائیڈرز کے ذریعے بھی داخل ہوئے،کہیں کنکریٹ اور کہیں آہنی دیواریں بلڈوزروں کے ساتھ توڑ ی گئیں تو یہ سب پلان کے بغیر ممکن نہیں تھا آخر اسرائیلی انٹیلیجنس اور حساس دفاعی ادارے ان سب سے بے خبر کیوں کر رہے؟ کہیں ایسے تو نہیں ہے کہ اسرائیلی سیاست و جمہوریت ان دنوں عدم استحکام کا شکار ہے بنجمن نیتن یاھو اگرچہ تجربہ کاروزیراعظم ہیں لیکن حالیہ برسوں میں جتنی حکومتی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے شاید کچھ لوگوں کا دھیان ادھر جائے کہ اس وجہ سے ادارہ جاتی کمزوری آئی۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ پچھلے دو برسوں سے حماس نے کوئی ایسی بڑی کارروائی نہیں کی ، یہ تنظیم بظاہر یہ شو کروا رہی تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو اسرائیل کے اندر روزگار کے مواقع دلانے کیلئے پرامن رہنا چاہتی ہے اس سے اسرائیلیوں کو ایک نو کا اطمینان و اعتماد محسوس ہو رہا تھا ۔اب اس سے بھی بڑی حقیقی اور اصل بات پر آتے ہیں جس کی طرف ہمارے میڈیا میں کسی نے بھی درست طور پر نشاندہی نہیں کی سب نے یوم سبت کا تو حوالہ دیا ہے کہ ہفتے والے دن یہود اپنے عقیدے کی بنیاد پر کوئی کام کاج نہیں کرتے صرف عبادت کرتے ہیں ، دوست احباب کو ملتےیاآرام کرتے ہیںہمارے عوام کو ادراک نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے مذہب، تہذیب اور تاریخ میں’’یوم کپور‘‘کی کیا اہمیت ہے یوں سمجھیے کہ جس طرح ہمارے مذہب میں عید کی اہمیت ہے،بلکہ شاید اس سے بھی کچھ بڑھ کر یہودی مذہب میں ’’احکام عشرہ‘‘کی اہمیت ہے جو ان کے مذہب کی جان ہیں ۔ہالی وڈ کی ایک زبردست فلم تھی ’’ٹین کمانڈمنٹس‘‘درویش اپنے تمام دوست احباب کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ تورات میں بیان کردہ بہت سے حقائق اور موجودہ صورتحال کے پس منظر کو سمجھنے کیلئے اس فلم کو ضرور دیکھیں جو ان تمام واقعات پر محیط ہے۔ بائیبل اور قرآن کے مطابق سیدنا موسیؑ سینائی میں کوہ طور پر 40 دن کیلئے جاتے ہیں اور’’ٹین کمانڈمنٹس‘‘یا’’احکام عشرہ‘‘خداوند کی طرف سے لے کر اپنی قوم کے پاس لوٹتے ہیں لیکن اپنی قوم میں سامری اور بچھڑے کا کھیل دیکھتے ہوئے سخت مضطرب اور رنجیدہ ہو جاتے ہیں بالآخر خداوند سے اپنی قوم کی کوتاہی پر معافی کے طلبگار ہوتے ہیں اس پس منظر میں بس یوں سمجھیے کہ ’’یوم کپو‘‘خدا اور بندگان ِخدا سے معافی طلب کرنے کا دن ہے عبرانی یا ھیبرو کیلنڈر کے مطابق The Holiest day of Jewish year .’’احکامِ عشرہ ‘‘کی یاد میں یوں سمجھیے کہ ہمارے رمضان اور عید کی طرح ان کے بھی یہ دس دن روزوں اور عید کے ہوتے ہیں۔ جومسیحی مہینوں ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں آتے ہیں۔ ان کی عید کا دن بہت سخت ہوتا ہے یعنی یومِ کپور کا روزہ جمعہ کو سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے اور ہفتے کی شام سورج غروب ہونے پر چوبیس گھنٹے بعد اختتام پذیرہوتا ہے۔ یہودیہ پورا دن شُول یا سیناگاگ جسے عبادت گاہ یا ہیکل کہہ لیں، عبادت کرتے، تورات پڑھتے، توبہ تائب ہوتے گزارتے ہیں اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں عزیزوں کیلئے خازان کے ساتھ مل کر اجتماعی توبہ اور اپنے تمام احباب سے معافی مانگی جاتی ہے شام کو شول میں یا اپنے گھر آ کر فیملی اور عزیزوں میں اجتماعی افطاری کی جاتی ہے جس میں اچھے اچھے کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ عرض مدعا یہ ہے کہ فلسطینیوں سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ یہود یا اسرائیلیوں کے نزدیک’’یوم کپور‘‘کی کیا اہمیت ہے اور دنیا و مافیھا سے بے خبر وہ کس دلجمعی سے اپنے روزے عبادت دعا اور توبہ و معافی میں مشغول ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمان عرب ان پر جب بھی حملہ آور ہوتے ہیں ان کی پلاننگ یہی ہوتی ہے کہ عین یوم کپور کے روز ان پر بے خبری میں دھاوا بولا جائے6 اکتوبر 1973کی جو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ ہوئی تھی اسے اسرائیلی تاریخ بلکہ مڈل ایسٹ کی ہسٹری میں یوم کپور کی وار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ کے 50 سال مکمل ہونے پر حماس نے اسرائیل کے اندر گھس کر جو دھاوا بولا ہے وہ بھی عین یوم کپور اور یوم سبت کی صبح تھی جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق مرنے والے یہودیوں کی تعداد گیارہ سو سے تجاوز کر چکی ہے 3 ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں اور 130 کے قریب یرغمالی بنا کر غزہ لے جائے گئے ہیں ، حماس کے’’آپریشن الاقصی فلڈ‘‘کے مطابق وہ کئی مقامات سے حملہ آور ہوئے اور 22 کلومیٹر اندر تک گئے،لبنان کی طرف سے حزب اللہ بھی حملہ آور ہو چکی ہے شام کی سرحد سے بھی جھڑپیں ہوئی ہیں یہود نے اپنی حالیہ نصف صدی میں ایسی تباہی نہیں دیکھی جسے آج اسرائیل کا’’نائن الیون‘‘قرار دیا جا رہا ہے۔ جس طرح عام بے گناہ سویلینز کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مارا گیا ہے وہ بھی ان کی عبادت والے مقدس دن، کیا اس جہاد کا اخلاقی جواز وضاحت طلب قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کے برعکس حماس والے جہادی از خود عورتوں بچوں اور عام شہریوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہوئے عین گنجان آبادیوں کے اندر سے تباہی والے راکٹس اور میزائلز چلاتے ہیں تاکہ مابعد مظلومیت کا لبادہ اوڑھا جا سکے اب ردعمل آنے پر مظلومیت کارڈ بے دردی سے کھیلا جائے گا درویش کا گمان ہے کہ اسرائیل کی آئندہ نسلیں دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر اپنا’’ یوم کپور‘‘ سوچ سمجھ کر ہی منائیں گی۔
