دو اگست کو اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ’’ ابھی امریکہ کے وزیر خارجہ سے پاکستان کی گفتگو ہوئی ہے اور خبر ہے کہ اس میں دہشت گردی کے مسئلہ پر امریکی تعاون جو آلات کی فراہمی وغیرہ کی شکل میں ہوگا پر سیر حاصل بات ہوئی ہے ۔ دنیا کو یہ سمجھانا بھی چاہئے کہ پاکستان کی مدد کرنے سے صرف پاکستان میں امن قائم نہیں ہوگا بلکہ دنیا زیادہ پر امن ہوگی‘‘ اس کے بعد بہت ہی اہم معاملات باقاعدہ طور پر طے کر لئے گئے ہیں جن کے پاکستان اور اس خطے پر غیر معمولی طور پر اثرات مرتب ہونگے اور ان پر صرف خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے ان تمام امور کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ امریکہ دوبارہ سے پاکستان اور خطے کو کن اہداف کےپیش نظریہ اقدامات کر رہا ہے ۔ امریکہ سے ’’ سی آئی ایس ایم اے او‘‘ معاہدے کی دوبارہ تجدید کر دی گئی ہے ۔ اس معاہدہ کی مدت دو ہزار بیس میں مکمل ہو گئی تھی ۔ اس تجدید کے نتیجے میںپاکستان کو امریکہ سے هتھیار اور کمیونی کیشن کی بہتر ٹیکنالوجی دستیاب ہو سکے گی اور جیسا کہ اپنے دو اگست کے کالم میں ، میں نے ذکر کیا تھا کہ اس سے پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کو دہشت گردی کی وجہ سے لاحق خطرات سے نبرد آزما ہونے میں بہت مدد مل سکے گی۔ اسی وجہ سے اس معاہدہ کی تجدید کے بعد سے بھارتی میڈیا میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور وہ اس معاہدہ کے حوالے سے مستقل طور پر یہ پروپیگنڈاکر رہا ہے کہ پاکستان چاہے جو مرضی کہتا رہے مگر در حقیقت اس کی تمام دفاعی نوعیت کی تیاریاں بھارت کو پیش نظر رکھ کے کی جاتی ہیں اور اس لئے اس معاہدے کے بعد پاکستان جو کچھ بھی حاصل کرے گا وہ بہر حال بھارت کی خطے میں بالا دستی حاصل کرنے کی کوششوں میں ایک زبردست رکاوٹ کے طور پر سامنے آ جائے گا ۔ بھارٹی میڈیا پاکستان اور امریکی قدم کی مخالفت میں افغانستان کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کیلئے یہ نکتہ پیش کر رہا ہے کہ پاکستان کو جب امریکہ سے بہتر کمیو نیکیشن کے آلات ميسر آ جائیں گے تو پاکستان ان آلات کا استعمال اپنی قومی سلامتی کو در پیش سب سے بڑے مسئلے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے استعمال کرے گا اور اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا ہدف کالعدم ٹی ٹی پی ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی افغان طالبان کی افغانستان میں قائم حکومت کے زیر سایہ اپنے اقدامات کر رہی ہے تو جب پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے گا تو اس سے افغان طالبان کی حکومت کی عمل داری مجروح ہوگی اس لئے یہ معاہدہ افغان طالبان کے بھی خلاف ہے ۔ اس میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیںکہ پاکستان اپنی قومی سلامتی کی غرض سے ہر قسم کا قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے اور اس کو ایسا کرنا بھی چاہیے مگر جہاں تک کسی ممکنہ اقدام کی وجہ سے افغان طالبان سے تعلقات میں گرم جوشی کی کمی کسی تلخی میں بدل جائے اس سے امکانی حد تک اجتناب کرنا چاہئے اور دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے ،جہاں ہم افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے مثبت رويہ کی توقع رکھتے ہیں وہیں پر ہمیں ان کے داعش وغیرہ جیسے مسائل ،میں بھی ان کی مکمل طور پر مدد کرنی چاہئے ۔جہاں تک بھارت کو سمجھانے کی بات ہے تو وہ بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔وہ آزادی کے روز اول سے ہی علاقہ کا تھانیدار بننے کاخواہاں ہے اور اس کی اس خواہش کے سامنے پاکستان بجا طور پر کھڑا ہے، اس لئے وہ پاکستان کا مخالف ہے ۔ جیسا کہ گزارشات کی ابتدا میں عرض کیا تھا کہ سردست بہت ضروری ہے کہ اس بات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے کہ امریکہ کے رويہ میں کیا کوئی تبدیلی آ رہی ہے اور اگر تبدیلی آ رہی ہے تو اس کی اس خطے میں کون سی ترجیحات ہیں ، جن کو حاصل کرنے کیلئے اس کی پالیسی میں کچھ تبدیلی آ رہی ہے ۔ چین ،عرب دنیا ، ایران، وسطی ایشیا ، افغانستان اور بھارت میں ہر صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی ہم امریکہ کی پالیسی اور اس کے اثرات کو سمجھ سکتے ہیں مگر اس وقت ایک اور بھی معاملہ درپیش ہیں کہ پاکستان میں نگران حکومت موجود ہے اور نگران حکومت میںبظاہر صلاحیت کا فقدان لگتا ہے کہ وہ خارجہ امور پر کوئی بڑی تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے اہداف حاصل کرلے۔ ایک دوسرا معاملہ بھی انہی دنوں میں سامنے آیا ہے کہ منسوخ شدہ ایف سی آر کے تحت کئے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کیلئے ہائی کورٹ کے حکم پر ٹربیونل قائم کیا گیا ہے ۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کیخلاف امریکی آپریشن میں مدد گار ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی اپیل کا حق حاصل ہو گیا ہے اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شکیل آفریدی کو اس ہلے میں آزاد کروا لیا جائے گا ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ شکیل آفریدی نے پاکستانی ریاست کا ملازم ہوتے ہوئے دوسرے ملک کی انٹیلی جنس سے ساز باز کی اور اپنی سرکاری حیثیت کو دوسرے ملک کی انٹیلی جنس کے منصوبہ کے تحت استعمال کیا ۔ اگر ایسا شخص کو کسی بھی قانونی موشگافی کا سہارا لیتے ہوئے رہا کردیا گیا تو اور نہ جانے کتنے’’شکیل‘‘سامنے آتے رہیں گے اس لئے کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں ۔
