نعیم مسعود

عباسی جی! گیلانی اور راجہ سے ملئے

لُکا چُھپی کے سیاسی کھیل میںکمال چہرے ہیں کہ درپن سے منہ نہیں چھپاتے بھلے کتنے ہی داغ ہوں۔ وہی جم کر دشمنی کر رہا ہوتا ہے، اور اُسی سے کل جس کے احسانوں تلے دبا تھا۔کبھی تو لگتا ہے ایک سیاست دان میں دو نہیں بیس آدمی ہوتے ہیں، ناٹک کمال کردار بھی کمال کہ پھولوں کی سیاست سے پھسلے تو کانٹوں کی سیاست میں بھی مہارت۔ قربتوں میں فاصلوں کے حامل لوگ عشق میں بھی کیا ’’سیاستیں‘‘گھولتے ہیں، عوام ہیں کہ تالیاں بجاتے نہیں تھکتے! اے حلقہ یاراں کیا یہی ہے حُب الوطنی؟
جن اقوام عوام و خواص کو اپنوں میں خامیاں اور دوسروں میں خوبیاں نظر نہیں آتیں وہاں ترقی کو تابع کرنا ممکن نہیں ہوتا، جی لینا تو زیادہ مشکل نہیں تاہم انصاف دے کر جینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایک اور بات ذہن میں رکھ لیجئے کاروبار گر حد سے زیادہ بڑھ جائے، ملکی حدود سے باہر پرواز کرنے لگے تو ایسے کاروباری کیلئے محض وطن یا حب الوطنی ہی کے دریچے نہیں کھلے رہتے رفتہ رفتہ بین الاقوامیت، کاروباری نزاکتوں، پروفیشنلزم اور عالمی مقتدر کے در بھی وا ہوتے جاتے ہیں۔ شاید یہی کچھ ہمارے ایک سابق وزیراعظم کا مسئلہ ہے جو محبتوں اور سیاستوں حتیٰ کہ احسانات و احساسات کے درمیان چٹان کی طرح کھڑا ہونے لگا ہے۔ ویسے ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کیلئے چٹان کی چڑھائی پر ملن کی سچائی غالب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر سیاست کے رنگ و روپ میں چھپی گرگٹ بھی کوئی کم دھوکے باز نہیں ہوتی ! وہ جو کہتے ہیں سابق وزیراعظم اور مریم نواز کے مابین جنم لینے والی سرد جنگ کا شاخسانہ ہے کہ دوریاں پیدا ہوگئیں، ان سے محض یہ پوچھنا تھا کہ مِفتاح اسمٰعیل اور مصطفےٰنوازکھوکھر کے اپنی اپنی پارٹی سے جی بھرنے اور کہیں اور لو لگنے میں بھی مریم نواز کا قصور ہے؟
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے تدبر نے وہ انگڑائی لی کہ سرکار بھولے منہ سے منہ زور مدبر ہو گئے گویا ایک’’ری ایمجننگ پاکستان‘‘ کو جنم دیا۔ رفاقت عباسی نامی شخص سے مَری میں شکست و ریخت کے بعد انہیں کرم فرماؤں نے لاہور ضمنی الیکشن سے اسمبلی بھجوا دیا باوجود پی ٹی آئی کے رفاقت عباسی سے منہ کی کھانے کے بعد اپنے فطری رفقاء سے منہ موڑ کر مفتاح اسمٰعیل اور مصطفےٰ نواز کھوکھر’’وغیرہ‘‘ سے رفاقتیں استوار کر لیں۔ جانے کوئی اپنا وہم تھا درمیاں یا عباسی کو کسی گھٹا نے ڈرا دیا؟ ویسے تو جنابِ عباسی کے پر پُرزے نکلنے کا تسلسل دکھائی دے رہا ہے ، پھر بھی فقیر کو یقین نہیں، جیسا جنوری 2023 میں سرکار نے بلوچستان کے سیمینار میں کہا بھی ’’اسمبلی میں اگر عوام کے مسائل پر بات ہو رہی ہوتی تو ہمیں سیمینار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ملکی معیشت تباہ ہو گئی اور سیاست بھی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ یہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں بلکہ عوام کے مصائب پر بات کرنا ہے۔‘‘ پہلی بات تو یہ کہ جہاں جمشیددستی سے عام فہم، فوادچوہدری سے نئے نویلے، نورعالم سے خاموش اور محسن داوڑ سے کم سن ٹھوک بجا کے بات کر لیتے ہیں وہاں آپ سے سابق وزیراعظم اور باپ سے ہنوز اسمبلی کے باسیوں کو بات کرنے میں شرم کیسی؟ اسمبلی فلور اور سیمینار میں موازنے کا مذاق آپ سا بندہ کرے، تو ہنسی نکلے گی یا جمہوریت کا جنازہ! جناب مفتاح کو کراچی ضمنی الیکشن میں اس قادر مندوخیل نے شکست دی جس سے پیپلزپارٹی کی اکثریت کبھی خوش نہیں رہی، وجہ یہ کہ مفتاح سیاسی گولی ٹافی دینے میں جتنے مشغول رہتے اس کا ہزارواں حصہ کسی حلقہ کو تو ٹائم دیا نہیں دیا کیونکہ طشتری میں رکھ کر حکومتی عہدہ شرفاء سے جو مل جاتا ۔
زیادہ ہی شوق تھا تو کاش جنابِ عباسی کوئی نیا نوابزادہ نصر اللہ ہی بن جاتے کہ جمہوریت کے گلشن کو گاہے گاہے کوئی تازہ جھونکا اور آبیاری ملتی رہتی۔ یہ امید راقم نے کبھی جاوید ہاشمی سے بھی رکھی تھی۔ خیر، سیاسی سوچوں کے اس کینوَس پر پیپلزپارٹی کی حالیہ قیادت پر ایک رشک آتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی اپنی پارٹی اور قیادت سےوفائیں ٹَس سے مَس نہیں ہوتیں! چہروں پر ملال نہ طبیعت میں تھکن ، کچھ سیاسی کامیابی ہاتھ لگ گئی تو بسم اللہ نہ لگی تو جدوجہد ۔ اسے سیاسی وفا و بقا، جمہور پسندی اور وضع داری نہیں کہتے ، تو کسے کہتے ہیں؟ چاہتے تو یہ بھی جتوئی یا کھر، ممتاز بھٹو، فاروق لغاری، آفتاب شیرپاؤ ، جام صادق یا ذوالفقار مرزا وغیرہ بن سکتے تھے۔ سیلوٹ کہ نہیں بنے! کیا جنابِ عباسی کوئی صادق نامی ہزیمت بننا پسند کریں گے؟ یقیناً نہیں ! تو صاحب سیدھے سیدھے یوسف گیلانی اور راجہ پرویز بن جائیے کہ شملہ اونچا رہے گا بھلے ہی بڑے کاروباری اور بین الاقوامی اڑان والے ٹھہرے۔ کیونکہ : موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں!
مان لیجئے جنابِ عباسی، آپ کے پاس تو کوئی عمران خان جیسی ‘نیا پاکستان، والی کستوری بھی نہیں ، اور ‘ری امیجننگ پاکستان، والا چورن بِکے گا نہیں۔ چوہدری نثار کا بِکا ؟ دریا میں رہئے صاحب ، کیا این جی او بننے کے درپے ہیں، یہاں شوکت عزیز اور معین قریشی سے امپورٹڈ وزرائے اعظم اور ٹیکنوکریٹس نے کیا گل کھلائے جو آپ مفتاح اسمٰعیل اور مصطفےٰ نواز کھوکھر کی باتوں میں آگئے ؟ یہ جو آپ جناب نے ایک’’کریڈیبل سروے کمپنی‘‘سے شماریاتی جائزہ لینے کی کوشش کی ، اور جو کمپنی نے آپ کا اسکور بتایا ہے، یعنی شرفا سے پسندیدگی میں آپ آگے نکل گئے۔ پتہ انہوں نے پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کو بھی شریفوں سے آگے نکال دیا (ہنسنا منع ہے)۔ اجی مان لیجئے، آپ بھول پن میں’’بہت ہی آگے‘‘ نکل گئے جو سیاسی مضر صحت ہو گا۔ آپ تو پہلے ہی ہَنس ہیں ،اور فقیر کو یقین ہے، بھلا کوّے کی چال کیوں چلیں گے؟ بھلے ہی اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا اِٹ کھڑکا ہے پھر کسی روز ذرداری صاحب کے ساتھ گرم کافی، بلاول بھٹو کے ساتھ کولڈ کافی اور راجہ صاحب اور گیلانی صاحب کے ساتھ شہر اقتدار کے دامنِ کوہ میں پارٹی کیجئے ، اور لوٹ آئیے زمیں پر !

اپنا تبصرہ بھیجیں