میں لاہور کے دل میں واقع ایک بہت تاریخی سڑک مال روڈ کا ایک شکستہ ریختہ فٹ پاتھ ہوں۔ میرے بالمقابل انصاف دینے والی بلڈنگ کا دروازہ ہے۔ پر ہنوز میرے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے۔میرے ایک طرف بہت پرانا تعلیمی ادارہ ہے۔ اس ملک کی بہت نامی گرامی شخصیت اپنے والدین کے ساتھ انگلی پکڑ کر روزانہ ادھر سے گزرتی رہی ہیں۔ملک بننے سے پہلے اور اس کے بعد جتنے بھی احتجاج ہوئے چاہے وہ مذہبی تھے یا سیاسی سب کے پاؤں کے نشانات میرے قلب میں اورمیرے وجود کا حصہ ہیں۔جی آپ نے صیح پہچانا میں ریگل چوک کا ہمسایہ ہوں۔
جتنے رومانوی ناول نگار شاعر۔ ادیب، فنکار، صحافی وکلاء حضرات۔مصنف سب کی تحاریر ، تصانیف یا مجالس کسی نہ کسی رنگ میں مجھے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ سب تمھید باندھنے اور اور اپنی اہمیت اجاگر کرنے کا مقصد آپ تک اپنی بے بسی لاچارگی نا انصافی اور اس ملک کی لاقانونیت کے بارے میں احساس دلانا مقصود ہے۔
کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری یہ بات
میرے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ کافی دیر سے جاری ہے۔ جیسا عموما ہوتا آیا ہےکہ لاہور میں قبضہ مافیا اپنے پاؤں پھیلاتا ہے۔ میں بھی ان کی نظروں میں آگیا۔ اور آج میری جو حالت ہے وہ قابل رحم ہے۔سب سے پہلے ایک مضبوط سیاسی شخصیت کی “سو”فٹ سڑک کی مرمت کے نام پر فٹ پاتھ کے شروع ۔ درمیان، اور آخر پر بھاری بھرکم اینٹوں سے بنے تھڑے بنا کر ان میں افتتاح کی تختیاں نصب کی گئی۔اور تاحال نصب ہیں اور وہ شخصیت اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔سب سے پہلا کٹ یہ لگایا گیا کہ پیدل چلنے والوں کے لئے رکاوٹ کھڑی کی گئی۔
دوسرا قدم واپڈا ملازمین کی ملی بھگت سے کھمبوں کی مضبوطی کے نام پر لوہے کے بڑے گارڈر میرے اوپر رکھ دئیے گئے۔وہ تو بھلا ہو نشہ کرنے والوں کا کچھ عرصہ ان کا نشہ پانی ان گارڈرز سے پورا ہوتا رہااور مجھے بھی تھورا سانس لینے کا موقع میسر آتا رہا۔لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے جب پارکنگ کا ٹھیکہ دیا گیا تب زیادہ میرے پر مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دئیے گئے۔ مجھے جگہ جگہ سے زخمی کیا گیا۔ میری کبھی بھی مرہم پٹی نہیں کی گئی۔ میری تاریخی حثیت ہونے کہ باوجود ملک کے معاشرے کے چلن کے مطابق جو بھی تاریخی قابل احترام شخصیت یا مقام اس کو فراموش کر دیتے ہیں قدر نہیں کرتے۔میرے ساتھ بھی سوتیلاپن رویہ رکھا گیا۔ شنید ہے ایک وکیل میری حالت زار دیکھتے ہوئے اس انصاف کے ادارے میں میری کتھا لیکر گیا تھا۔ وہ اس وقت کے منصف کی فائلوں کے انبار میں دب کر رہ گئی جب ناجائز تجاوزات بل بورڈز اتارنے کا شوروغوغا عام تھا۔ پر میری حالت زار پر کسی کو ترس نہ آیا۔ جو بچے اسکول آنے جانے کے لئے میری خدمات لیتے تھے ان کے احتجاج سے تنگ آکر دانستہ یا نا دانستہ ان دیکھےدباؤ کے پیش نظر اسکول کے اس مرکزی گیٹ کو بند کروا دیا گیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری
اب میری یہ حالت ہے کہ جیسے جیسے دن گزرتا ہے قبضہ مافیا موٹر سائیکل کار پارکنگ کی چکر میں مجھ پر اندھا دھند رش ڈال دیتا ہے ۔ وہ لوگ جو مجھ پر گزر کر راحت محسوس کرتے تھے جن کے قدموں کے چلنے سے ان کی خدمت کرنے سے مجھے بھی ایک تفخر سا محسوس ہوتا تھا۔ وہ سب اس قبضہ مافیا کے ہاتھوں ہوا ہو چکا ہے۔ روز اس امید پر پھر سے کمر کس لیتا ہوں کہ شاید کسی حکمران، کسی انصاف دینے والے انصاف دلانے والے کی نظروں میں معتبر ٹھر جاؤں اور مجھے اس نادیدہ قوت سے نجات مل جائے جو آئے روز مجھے اپنے چنگل میں سمیٹتے جا رہی ہے۔کہ مجھے میری میراث مل جائے میری پہچان مجھے مل جائے میں آج بھی ان لوگوں کے رہ گزر کا امین ہوں جو اس دنیا سے چلے گئے پر مجھے اپنی تصانیف میں لکھ گئے اور تاریخ کےایک انمنٹ نقوش میں ڈھال گئے۔
یہ کتھا اس لئے بیان کی کہ سنا ہے پنجاب کا موجودہ کرتا دھرتا جو بغیر ووٹوں کے مسند اقتدار پر ہے اور آئے روز وہ میڈیا پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے شاید میری مدد کو بھی آ جائے اور میری بھی سنی جائے اور مجھے اس پارکنگ مافیا سے نجات دلا کر میرا ماضی میری جوانی میرا حسن مجھے لوٹا دے۔ آخر حسن ظن بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔
منجانب۔ مال روڈ کا ایک ٹوٹا پھوٹاتاریخی یرغمال فٹ پات
