پاکستانی سیاست میں نیا دور صبح ِروشن کی مانند عیاں ہو چکاہے۔میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور شاندار جلسہ عام اس بات کی عکاسی کر رہا تھا کہ پاکستان میں سیاست کو در گور کئے جانے کیلئےکئے گئےاقدامات کو عوام نے مسترد کر دیا ہے اور عوام اس سب کے با وجود کہ سیاست دانوں کے خلاف کیا کیا زہر نہیں اگلا گیا ، بہر صورت سیاسی عمل پر یقین رکھتےہیں۔ یہ عوام کا جمِ غفیر کسی مقامی ایم این اے یا ایم پی اے کے ساتھ نہیں آیا تھا بلکہ اس کا کم و بیش ستر فیصد ایسا تھا جو صرف نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے،اپنے خوابوں کو تعبیر کی صورت دینے والے اپنے قائد کے استقبال کیلئے خود پہنچا تھا ۔ نواز شریف کی وطن آمد کسی کی فتح و شکست کی بجائے سیاسی عمل اور آئین کی بالا دستی کی کامیابی کی ایک علامت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائیگی ۔ حسب توقع ایک متوازن تقریر تھی کہ جس میں اس بات کا برملا تذکرہ تھاکہ اصل مسئلہ جو اس وقت قوم کوبری طرح سے درپیش ہے وہ زبوں حالی کی جانب گامزن قومی معیشت کا ہے اور اگر اس کو درست کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارا بدلہ لینا یہی ہوگا کیونکہ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ جولائی دو ہزار سترہ کے جھٹکےنےملکی معیشت کو ایسا پٹری سے اتاراکہ یہ اس وقت سے لڑ کھڑا ہی رہی ہے ۔ جن افراد نے صرف شخصی اغراض کے حصول کیلئےیہ سب کچھ کیا ان کی جانب اشارہ کرنا بہت ضروری تھا تا کہ اس بات کی وضاحت عوام کے دلوں میں بر قرار رہے کہ اس سب کا آغاز کن کن کی صرف ذاتی خواہشات کے سبب ہوا تھا۔ اس بات کا اعلان کرنا بھی ضروری تھا کہ کسی سے بھی ذاتی انتقام لینا درکار نہیں کیونکہ دشمنی کی سوچ رکھنے سے اصل ہدف یعنی معیشت کی بحالی پس پشت چلی جائے گی ۔ سیاست و معیشت کا ہر طالب علم بخوبی آگاہ ہے کہ معاشی بحالی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کہ جب تک مکمل طور پر سیاسی استحکام قائم نہ ہو جائے ۔ بین الاقوامی برادری بھی پاکستان میں بتدريج رونما ہونیوالی سیاسی تبدیلیوں کا بغور مشاہدہ کر رہی ہے اور مشرق و مغرب میں بہت تیزی سے یہ تاثر تقویت پا رہا ہے کہ پاکستان میں جلد حقیقی عوامی حمایت رکھنے والی مضبوط سیاسی حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم ہو جائیگی جسے استحکام بھی حاصل ہوگا ۔ پاکستان میں بین الاقوامی برادری کیلئے اعلیٰ ترین سطح سے لیکر عمومی سطح تک کے کاروباری مواقعوں کی بھرمار ہے۔ ایک ملک نہیں بلکہ کئی ممالک کے سفارت کاروں نے راقم سے بہت بار ذکر کیا کہ پاکستان میں جیسے ہی منتخب حکومت قائم ہوگی، اور سبھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ منتخب حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم ہوگی تو اس وقت یہ تمام ممالک پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرینگے کیوں کہ سیاسی استحکام ہی سرمایہ کاری کی ترغیب کیلئے بنیادی ضرورت ہے اور اس بار یہ سرمایہ کاری صرف ایک دوست ملک کی جانب سے نہیں ہوگی بلکہ اس کا کینوس اس سے بڑا ہوگا ۔ بس بین الاقوامی برادری میاں نواز شریف کی قیادت میں حقیقی معنوں میں منتخب پائیدار حکومت کے قیام کی منتظر ہے ۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے استفسار کیا کہ آپ کو جلسہ میں کوئی کمی بھی محسوس ہوئی۔میرا جواب تھا ہاںبالکل محسوس ہوئی ۔ کیا کمی تھی ؟ راجہ ظفرالحق ، اقبال جھگڑا اور اسی طرح کے بزرگ سیاستدان جنکی مسلم لیگ ن سے وفاداری ایک لمحہ کیلئے بھی سوالیہ نشان نہیں بنی ان کی اسٹیج پر عدم موجودگی بری طرح سے محسوس ہوئی ۔ فلسطینیوں سے جس والہانہ انداز میں وابستگی کا اظہار کیا گیا اس نے واضح کردیا کہ پاکستان میں بسنے والے افراد کے اس مسئلہ پر کیا احساسات ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ایران کے سفیر لاہور آئے ۔ ان کا میری دعوت پر تشریف لانا طے ہوا تو میں نے قونصل جنرل ایران سے کہا کہ میری تو اس نوعیت کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں کیوں نہ اپنے کچھ دوستوں کو بھی اس نشست میں مدعو کر لیا جائے تا کہ پاک ایران تعلقات اور فلسطين کی صورت حال پر ایرانی مؤقف سے ایرانی سفیر کی زبانی آگاہی حاصل ہو ۔ ایرانی سفیر نے مختلف موضوعات پر ایرانی مؤقف کی وضاحت کی۔ اس نشست میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے ذکر کیا کہ پاکستان کے عوام کے جذبات اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے قیام پاکستان سے قبل کے ہیں ۔ جب مارچ انیس سو چالیس میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں قرار داد لاہور منظور کی تھی تو اس کے ساتھ ساتھ فلسطين کے مسئلہ پر بھی قرار داد منظور کی گئی تھی ۔ حضرت قائد اعظم کے ارشادات اس مسئلہ میں ہمارے لئے آج بھی حرف آخر ہیں ۔ موجودہ صورتحال کی وجہ بالکل واضح ہے کہ ابراہام اکارڈ سے بتدريج عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے چلے جا رہے تھے اور فلسطینیوں کی قربانیاں غیر اہم ہوتی جا رہی تھیں ۔ سعودی عرب بھی اگر ایسا ہی کر گزرتا تو پھر معاملہ بالکل ہی ٹھپ ہو جاتا اور بے بس فلسطینیوں کی آواز مستقل بنیادوں پر دب جاتی ۔ حماس کے پاس اس صورت حال سے محفوظ رہنے کا واحد حل یہ تھا کہ وہ لڑ بھڑ جاتے ۔ اسماعیل ہانیہ تو اپنے گھر سے جنازے اٹھا رہے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا اخلاص ہوگا؟
