پاکستان کا مطلب کیا لا إله إلا الله کے ناروں سے گونجتی ہوئی آوازیں، جب تہذیبوں کی ٹکراؤ نے حضرت انسان کو اس بات پر مجبور کیا کہ الگ الگ تہذیبوں کے مالک اپنے لئے ایک الگ مملکت کا انتخاب کرے تو اکابرین ہند نے مسلمانوں کے تہذیب تمدن کو دیکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ اسلام ہندو مذہب کے برخلاف مذہب ہے، اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے دو قوموں کے لئے ناگزیر ہے کہ اپنے لئے الگ مملکت منتخب کرے تو مسلمانان ہند نے اپنے اکابرین کے آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان میں اپنے الحاق کا اعلان کیا۔ یہ ایک تویل جدوجہد کا نام ہے، مسلمانان ہند کے نظریاتی، ثقافتی، اور جداگانہ شناخت کے حصول کے لئے جوان، بزرگ، بچے، مرد اور عورت یعنی ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے بے بہا قربانیاں دی جس کے بنا پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔
یہ 1857 سے پہلے کے لمحات تھے کہ جب برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت تھی اور مغلوں کے بعد 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے یہاں پر قبضہ کر لیا، اور انگریزوں نے ہر جگہ پر اپنی تسلط قائم کی۔ اس تسلط کے بعد برصغیر کی تمام قومیں تقسیم در تقسیم ہوگئی اور مایوسیوں کے دلدل میں دھنسی جارہی تھی جیسے آزادی کا خواب اب ایک پرچائی کی مانند سی بن چکی ہو۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، ایک ایساں تعلیمی نظام بنایا گیا کہ جس مسلمان بچے عصری تعلیم سے دور رکھے گئے، روزگار کے مواقع ناپید رکھے گئے، انسان کو انسان سے تشبیہ نہ دی گئ یہاں تک کہ مسلمانوں کے ساتھ بعید از سوچ سماجی، معاشرتی، معاشی اور علمی ذیادتیاں کی گئی۔ دین اسلام کے خلاف مختلف تحریکیں چلائی گئیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور اسلاف کے کارہائے نمایاں کو مسخ کرنے کی مضموم کوششیں کی گئی۔
انگریزوں کے انے سے برصغیر کے ہندوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ ان سے پہلے ان پر مسلمانوں کی حکومت تھی جس کے بنا پر ہندو اس کوشش میں تھے کہ برصغیر اور خاص طور پر وہاں کے مسلمانوں پر انگریزوں کے ساتھ ملکر حکمرانی کیا جاسکے، جس کے بنا پر ہندوؤں نے انگریزوں کے ساتھ ملکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے شروع کئے۔ ایک وقت ایساں بھی آیا کہ ہندو انگریزوں کو نکال کر خود حکمرانی کے خواب بھننے لگے اور موقع کے تلاش میں ہوا کرتے تھے۔ مسلمانوں پر کیچڑ اچھالتے، انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکھاتے، اور مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف تاکہ کسی طرح سے ان دونوں کو انگیج رکھ خود فائدہ اٹھا سکے۔ مگر کفر اپنی چالیں چلائے اور میرے اللہ کی چالوں کا کون مقابلہ کرسکتا ہے۔
مسلمانان برصغیر جب جدھر دیکھتے تاریکیوں اور مایوسیوں کے سوا کچھ نا دیکھتے، ہر طرف سے بے سکونی اور بے سر و سامنی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالی نے ان مایوسیوں کے بادل کو مٹانے کے لئے، قوم کے ان مایوسیوں کو ایک نئی عظم و استقلال میں بدلنے کے لئے اس قوم میں بہادر رہنما بھیجے۔ جس نے اسلام کی تحفظ کو مسلمانوں کی بیداری کو اپنا وطیرہ بناکر آزادی حاصل کرنے کے لئے سورج کی طرح عیاں کوششیں شروع کردی۔ ان رہنماوں میں مولانا شعبلی نعمانی، ظفر علی خان، چوہدری رحمت علی، علامہ محمد اقبال وہ دیگر شامل رہیں۔ علامہ محمد اقبال ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا نہ صرف بلکہ اس خواب کو تعبیر فراہم کرنے کے لیے عملی جدوجہد بھی کی۔ انہوں خود بھی محنت کی اور مسلمانوں میں ایک نئی جوش و ولولہ پیدا کی۔ سن 1930 الہ آباد میں ہونے والی کانفرنس میں علامہ اقبال رح ہی تھے جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا جنہیں بے حد پذیرائی ملی اور مسلمانان ہند نے اجتماعی طور پر اس کے حصول کے لئے جدوجہد شروع کردی۔
مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس مارچ 1940 کو ہوا جس میں قائد اعظم نے نہ صرف شرکت کی بلکہ اس اجلاس کی صدارت بھی کی۔ قرارداد پاکستان سے تو عوام واقف ہی ہے اس قرارداد کو اسی اجلاس میں پیش کیا گیا جنہیں منظور کیا گیا۔ قرارداد کے حصول کے لئے دیگر علاقوں کے مسلمانوں نے بھی اپنی ناقابل تسخیر جدوجہد شروع کی۔ یہ وہ جدوجہد تھی جنہیں اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں قبولیت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور کرہ ارض پر ایک نیا ملک ایک نئی مگر برتر نظریہ اسلام کو وجود بخشا گیا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا إله إلا اللہ کا نظام دنیا کو دینا، ایک بہترین تہذیبی، معاشرتی اور معاشی نظام نہ صرف اپنے آپ میں لانا تھا بلکہ دنیا میں ناچاقیوں کا خاتمہ کرنا، دنیا کو امن خوشحالی کی طرف لیکر جانا اس کا مقصد تھا۔
یہ 14 اگست کا دن تھا، رمضان کا مہینہ تھا، اور اس بابرکت مہینے کی 27 ویں شب یعنی لیلتہ القدر کی رات تو پاکستان آزاد ہوا، اللہ تعالی نے دنیا پر باور کرایا کہ اگر دنیا والے سلطنت عثمانیہ کا تختہ ملیامیٹ کرے تو نظریہ اسلام نے پھر بھی زندہ رہ کر پاکستان کی شکل میں پروان چھڑنا ہے اور دنیا چاہیے کہیں سے کدھر پہنچے اسلام ہی وہ افاقی دین و مذہب ہے جو دنیا کے تحفظ، امن اور خوشحالی کا ضامن ہے جس کے سامنے بہت سے نظام ائے بھی، لائے بھی گئے مگر سب نے انسانیت کا بھیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔ سوشل اینڈ جسٹس سسٹم کی ضرورت اس وقت دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ہے جس کے تحت لوگ سکھ کا سانس لے سکے، برائے نام جمہوریت ہی ہے جس نے دنیا کے خدوخال تبدیل کر رکھ دیئے، پاکستان ہی وہ واحد ملک ہوگا جنہوں تمام انسانیت کے تحفظ کے کئے اگے انا ہے۔
14 اگست کا دن ہم ہر سال کی طرح بڑے دھوم دام سے اس سال بھی منائینگے۔ یہ آزادی کا دن ہے پاکستان کے لئے اور پاکستانیوں نے اس دن کو ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی زندہ رکھنا ہے۔ یوم آزادی کے مناسبت سے اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنے کے لئے صبح فجر میں پاکستانی قرآن خوانی کرتے ہے، ملک کے شہیدوں کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے، سارے ملک کو دلہن کی طرح سجا دیا جاتا ہے اور اس کی کامیابی اور کامرانی کے لئے اللہ تعالٰی کے حضور لوگ سجدہ ریز ہوجاتے ہے۔ سرکاری عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر اپنے ملک کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔ بسوں، ٹرکوں، سائکلوں، موٹر سائیکلوں، گاڑیوں غرض ہر جگہ اپنے پیارے وطن کی جھنڈیاں لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہاں 14 اگست کے دن لوگ اپنی وفا کا اظہار کرنے کے لئے ریلیاں نکالی جاتی ہے، جلسے کئے جاتے ہیں، جس میں تقاریر، ملی نغمے وغیرہ ہوتی ہیں۔ اس دن نوجوان، بزرگ، بچے اور عورتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
مگر اس وقت ہم کہا کھڑے ہیں؟ کیا ہم وہ خواب جنہیں علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اس ملک کے لئے، کیا ہم اسکی تعبیر پر کھڑے ہیں؟ کیا حال بنا دیا اس ملک کا، سیاست دانوں کے لئے سیاست نہیں مفادات عزیر ہوچکے، عمران خان کے پی ٹی ائی کے کارکنان نے تو حد کردی کہ ہم آزادی کا دن نہیں منائیں گے۔ بلوچستان میں بہت سے قوم پرست جماعتیں ہے جو آزادی کے دن کو نہیں مناتے، اسی طرح سے معیشت دان کو ملک کی بہتری کے بجائے زاتی معاشی زندگی درکار ہے، بیوروکریٹس بھی اپنی من مانیوں میں کسی سے پیچھے نہیں، عسکری اداروں میں جہاں ہمارے بھائی روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دیتے ہو وہاں اسی ادارے کے چند مگر بڑے بڑے عہدوں پر بیٹے اپنے اپ کو فرعونیت کا لقب دیتے ہوئے انہی جوانوں کی قربانیوں کو اپنے لئے ڈھال بناتے ہے۔ عدالتوں میں موجود ججز کے لئے ملک کی کوئی پرواہ نہیں البتہ عدالت کی توہین انہیں برداشت نہیں۔ جمہوریت برائے نام ضروری جس سے ملک کو چاہیے کتنا ہی نقصان پہنچے جمہوریت کے بغیر جیسے ہم مرینگے۔
مگر چونکہ ناامیدی کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اقبال بھی تو اپنی کشتِ ویراں سے نا امید نہیں تھے۔ ہم بھی بہتری کی امید رکھتے ہیں مگر صرف امید سے کچھ نہ ہو گا کچھ عملی کردار بھی ادا کرنا ہو گا کیونکہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ وہ کبھی اس قوم کے حالات کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس کے لیے تگ و دو نا کرے۔ اقبال کا کہنا بھی یہی ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمیں بھی پاکستان کی بہتری کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانی ہو گی۔ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام ایمانداری کے ساتھ بہترین انداز میں کرنا ہو گا۔ قائد کا پاکستان، نظریاتی پاکستان، اسلامی پاکستان ہی ہمارے لئے راہ نجات ہے اسکے علاوہ جو بھی دعوہ کیا جاتا ہے، لایا جاتا ہے، اس سے پاکستان کا کوئی تعلق نا تھا اور نا ہی رہیگا۔ اللہ رب العزت ہمارے پیارےپاکستان کو درپیش تمام مسائل سے رہائی دے اور اسے قیامت تک قائم و دائم رکھے۔ آمین
