آغا وقار ھاشمی

6 ماہ کا شہید

کچھ سال پہلے میرے دوست کا تقریباً ڈیڑھ سالہ بیٹا گرم پانی کے پتیلے میں گر کر بری طرح جھلس گیا، تقریباً 45 فیصد جسم بری طرح جھلس چکا تھا، حالت بہت نازک تھی، کچھ دن ہسپتال داخل رہا، لیکن قسمت کا کرنا کہ بچ نہ پایا،
میں ہسپتال اور اسکے بعد بچے کے کفن دفن میں دوست کے ساتھ ساتھ رہا، اسکو ان نازک ترین حالات سے گزرتے ہوئے قریب سے دیکھ رکھا تھا،
چند دن پہلے جب اس سے ملاقات ہوئی، تو باتیں کرتے کرتے کہیں اس دن کا تذکرہ غیر دانستہ طور پر چھڑ گیا،
گو کہ اللہ نے اسے پھر سے صاحبِ اولاد کیا لیکن اسکے لہجے اور گفتگو سے مجھے احساس ہوا کہ کئی سال گزرنے کہ بعد اس کا غم کم ہوا ہو لیکن ختم نہیں،
اسکے بیٹے کی وفات کا تذکرہ چھڑنا تھا کہ وہ جیسے ماضی کے جھروکوں میں چلا گیا اور وہاں جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا مجھے سناتا چلا گیا اور میں خاموش ساکت بیٹھا سنتا رہا،
کہنے لگا کہ جب خبر ملی کہ بیوی حمل سے ہے تو خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، سارے گھر کو انتظار تھا، گھر میں پہلے بچے کی آمد تھی،
لڑکی ہو گی تو کیا نام رکھنا ہے، لڑکا ہو گا تو کیا نام، اس پر باقاعدہ سارے گھر والوں کی طویل بحثیں ہوئیں،
اسکے پیدا ہونے کے بعد گھر کے ہر فرد کی توجہات کا مرکز بن چکا تھا، اسکی ایک ایک ادا، ہاتھوں کے جنبش، مسکراہٹ سب کے لئے تفریح کا باعث تھی،
اسکے منہ سے نکلنے والے بے معنی الفاظ میں ہر کوئی اپنے اپنے معنی تلاش کرتا،
میں تو اسی وقت سے اسکے روشن مستقبل کے لئے پلاننگ کرنے لگا تھا، فلاں سکول میں داخل کرواوں گا، تو اتنی ماہانہ فیس کا بندوبست ضروری ہو گا، قرآن پڑھانے کوئی گھر ہی آ جایا کرے گا، اسکے کھیل کود کے لئے قریبی پارک کون سا بہتر ہو گا، جہاں ہر شام جایا کریں گے،
ابھی تو اسکے دودھ، پیمپر، کپڑوں کے لئے پیسے کمانے کی محنت کرنے میں مجھے مزا آنا شروع ہی ہوا تھا کہ اسکی اچانک سے موت نے سب خواب چکنا چور کر دیئے،
وہ بتاتا ہے کہ جس دن اس نے وفات پائی میں اور اسکی ماں غم سے نڈھال تھے، لیکن میرے ذیہن میں اسکے کفن دفن کی ذمے داری کا خیال تھا،
جیسے ہی میں نے اسے اسکی قبر کے سپرد کیا، اور اس پر مٹی ڈالی تو اک لمحے کے لئے میرا دل دِھل گیا، جیسے جیسے وہ مٹی میں ڈھکتا جا رہا تھا میرا دل ڈوبتا جا رہا تھا، لیکن جیسے ہی اسے دفنا کر اٹھا تو مجھے اپنے غم میں ذیادہ نہیں تو کچھ حد تک تو کمی محسوس کہ کم از کم میں نے اپنی ذمہ داری پوری کی،
گھر جا کر اپنی بیگم کو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا، کوشش کرتا رہا کچھ ایسا کہہ سکوں کہ اسے کسی طرح کچھ صبر آ جائے، لیکن وہ تو سنبھالے نہ سنبھلتی تھی، اور میں ایک ہی گردان الاپتا رہا کہ صبر کرو، اسے میں اللہ کے سپرد کر آیا ہوں، اللہ کے سپرد، اسے دفنا آیا ہوں، وہ اب اس دنیا سے بہتر جگہ پر ہے …….

میرے دوست کہ منہ سے یہ سننا تھا کہ میری سوچ کربلا میں شش ماہِ علی اصغر کے لاشے سے متصل ہوئی اور مظلومہ بی بی رباب ع کا خیال آیا، کہ شاید امام حسین علیہ السلام کا علی اصغر ع کو دفنانے سے انکے غم میں کچھ کمی آئی ہو کہ اللہ کے سپرد کر دیا علی اصغر ع کو،

ننھی سی قبر کھود کہ اصغر کو گاڑ کہ
شبیر اٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑ کہ

لیکن ہائےجب فوجِ ستمگر نے علی اصغر ع کے سر کو تن سے جدا کر کہ نیزے پر بلند کرنے کے لئے قبر کھود کر لاشے کو نکالا ہو گا… علی اصغر ع کی ماں پر ایک بار پھر کیا قیامت گزری ہوگی …

اپنا تبصرہ بھیجیں