13 محرّم

۱. اسیران کربلا دربار ابن زیاد میں
[امالی صدوق، ص۲۲۹؛ روضه الواعظین، ص۱۹۰؛ بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۵۴]

شہدائے کربلا کے سروں اور اسیران کربلا کو جب کوفہ کے کوچہ و بازار میں پھرایا جا چکا، تو ابن زیاد اپنے دربار میں بیٹھا اور اس نے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس اس کے پاس لایا جائے؛

اس کے بعد اہل بیت علیہم السلام کی خواتین اور بچوں کو امام سجاد علیہ السلام کے ہمراہ رسن بستہ دربار میں لایا گیا، اور اس ملعون کے تخت کےسامنے کھڑا کیا گیا جب کہ اس کے درباری تماشائی بنے کھڑے تھے۔

  [الوقایع و الحوادث، ج۴، ص۶۲؛ وقایع الایام، تتمه محرم، ص۲۵۶]

۲۔ اسیران کربلا زندان کوفہ میں

ابن زیاد کے دربار نجس کے بعد، اہل بیت علیہم السلام کو زنجیر میں باندھ کر کوفہ کے زندان میں لے جایا گیا۔

[امالی صدوق، ص۲۲۹؛ روضه الواعظین، ص۱۹۰؛ بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۵۴؛ الوقایع و الحوادث، ج۴، ص۸۹؛ وقایع الایام، تتمه محرم، ص۲۶۳]

۳۔ امام حسین علیہ السلام کی خبر شہادت مدینہ و شام میں

ابن زیاد نے مدینہ اور شام والوں کے نام خطوط جاری کیے اور امام حسین علیہ السلام کی خبر شہادت کو نشر کیا۔

[لهوف، ص۲۰۷؛ الوقایع و الحوادث، ج محرم، ص۹۶؛ وقایع الایام، تتمه محرم، ص۲۶۴]

۴۔ شہادت عبد اللہ بن عفیف

عبد اللہ بن عفیف ازدی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بزرگ اصحاب میں سے تھے اور وہ جنگ جمل و صفین  میں یکے بعد دیگرے اپنی دونوں آنکھیں کھو چکے تھے۔ لہذا اکثر اوقات عبادتوں میں مصروف رہا کرتے تھے۔

انھوں نے جب یہ سنا کہ ابن زیاد ملعون حضرت امیر المومنین اور امام حسین علیہ السلام پر کذب کی تہمت لگا رہا ہے تو مجمع سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا:

خاموش ہوجا اے پسر مرجانہ، تو کذّاب ہے اور تیرا باپ کذّاب ہے اور جس نے تجھے اس مقام تک پہونچایا۔

اے دشمن خدا !

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی آل کو قتل کرتا ہے اور پھر منبر سے ایسی باتیں کرتا ہے؟!

سپاہیوں نے چاہا کہ انہیں گرفتار کرلیں لیکن انکے قبیلہ والوں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور وہ ان کی مدد سے گھر واپس آگئے، بعد میں ابن زیاد کے سپاہی ان کے گھر پہونچے اور محاصرہ کرلیا، عبد اللہ بن عفیف اور ان کی بیٹی کی شجاعانہ جنگ کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا اور جیسا کہ انہوں نے خدا سے چاہا تھا وہ بدترین خلق یعنی ابن زیاد کے ہاتھوں شہادت سے سرفراز ہوئے۔

[ارشاد، ج۲، ص۱۱۷؛ مثیر الاحزان، ص۷۲؛ لهوف، ص۲۰۳؛ مقتل الحسین (ابی مخنف)، ص۲۰۷؛ بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۱۹؛ سفینه البحار، ج۳، ص۳۴۲؛ الوقایع و الحوادث، ج۴، ص۸۰؛ تاریخ طبری، ج۴، ص۳۵۱]

📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۳/ محرم، ص۳۶.

اپنا تبصرہ بھیجیں