‏فیصل آباد

02 بقیہ فیصل آباد

۱۹۰۶ء میں اسے ضلع کا درجہ دے کر سمندری ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لائلپور کی تحصیلیں شامل کی گئیں جبکہ جڑانوالہ کو سب تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ بعد ازاں جڑانوالہ کو بھی تحصیل کا درجہ حاصل ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ ۱۹۷۹ء میں ضلع بنا دیا گیا تو ضلع لائلپور کی حدود کم ہو گئیں۔
ضلع کی بیس لاکھ ایکڑ اراضی بحساب کسان ایک مربع کاشتکار چار پانچ مربع اور زمیندار چھ سے بیس مربع تک تقسیم کی گئی۔ شہری اراضی ایک روپیہ فی مرلہ تک فروخت کی گئی۔ شہر میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کیلئے ۱۹۰۶ء میں زرعی کالج کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ کالج کی عمارت ۱۹۰۹ء میں مکمل ہوئی جس کو پنجاب ایگریکلچرل کالج اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا نام دیا گیا اور بعد میں ۱۹۶۱ء میں اسے مغربی پاکستان زرعی یونیورسٹی اور ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے قیام کی صورت میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ۱۹۱۰ء میں یہاں پرائمری سکول قائم ہوا جو آج کل ایم سی ہائی سکول علامہ اقبال ٹاؤن ہے۔
۱۹۱۱ء میں لائلپور کی آبادی ۱۱ ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہاں ۱۱ جننگ فیکٹریز تھیں۔ ۱۹۱۲ء میں کارونیشن لائبریری کا قیام ہوا جو موجودہ علامہ اقبال لائبریری ہے۔۱۹۳۴ء میں طلباء و طالبات کے کالجز وجود میں آئے۔ ۱۹۳۳ء میں لڑکوں کے کالج اور ۱۹۳۸ء میں لڑکیوں کے کالج کو ڈگری کا درجہ حاصل ہوا۔ اب لڑکوں کا کالج یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں جتنے سکھ اور ہندو آباد تھے، یہ سب نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ جالندھر، ہوشیار پور اور امرتسر وغیرہ کے علاقوں سے مسلمان آ کر آباد ہوئے۔ یوں شہر اور علاقے کی تہذیب و ثقافت نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جناح کالونی کی جگہ میلہ منڈی مویشیاں کے لیے مخصوص تھی۔ اسے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں سمندری روڈ پر موجودہ علاقہ اقبال کالونی والی جگہ پر منتقل کیا گیا اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں اس سے آگے موجودہ بائی پاس کے پہلو میں منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد غلہ مندی کو کارخانہ بازار اور ریل بازار کے درمیان سے ڈجکوٹ روڈ پر منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت شہر کی آبادی آٹھ بازاروں سے باہر سنت پورہ، پرتاب نگر، ہرچرن پورہ، گورونانک پورہ، ماڈل ٹاؤن اور پکی ماڑی کے عقب میں طارق آباد کی کالونیوں تک پھیل چکی تھی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نہر رکھ برانچ کے دوسری طرف پیپلز کالونی اور دیگر رہائشی علاقے تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔ غلام محمد آباد ، سمن آباد، ڈی ٹائپ کالونی، رضا آباد، افغان آباد، ایوب کالونی اور ناظم آباد کے رہائشی منصوبے ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں تعمیر ہوئے۔ بعدازاں مدینہ ٹائون اور پیپلز کالونی کی رہائشی کالونیاں تعمیر ہوئیں۔ گلستان کالونی، گلفشاں کالونی، ملت ٹاؤن وغیرہ کی تعمیر سے شہر کا دامن چاروں اطراف میں کئی کئی میل تک پھیلا تاج کالونی، منصورہ آباد، گلشن کالونی، سِدھوپورہ، خالد آباد، جناح کالونی، شاداب کالونی، راجہ کالونی، ماڈل ٹائون، علامہ اقبال کالونی، عبداللہ پور، واپڈا سٹی، طارق آباد، اسلام نگر، گل بہار، گلبرگ، شالیمار پارک، رچناٹائون وغیرہ اس کی اہم رہائشی بستیاں ہیں
۱۹۷۷ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید کئے گئے تو حکومت پاکستان نے اظہار یکجہتی کیلئے شہر کا نام لائلپور سے تبدیل کرکے فیصل آباد رکھ دیا ۱۹۸۱ء میں اسے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا اور اس میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ کے اضلاع شامل کئے گئے ۲۰۰۰ ء میں نئے ضلعی نظام کے قیام کے ساتھ ہی ڈویژنز ختم کر دی گئیں ۲۰۰۸ء میں ایک بار پھر ڈویژنوں کو بحال کر دیا گیا تو فیصل آباد ڈویژن بھی دوبارہ قائم ہو گئی ۱۹۵۹ء میںیہاں ٹیکسٹائل کالج اور اقبال اسٹیڈیم تعمیر ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں ملت کالج اور ایئرپورٹ بنے۔
۱۹۷۳ء میں پنجاب میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۴ء میں چیمبر آف کامرس اور پنجاب بیوریج کمپنی۱۹۷۵ء میں زرعی ترقیاتی کارپوریشن بینک اور ۱۹۷۶ء ایف ڈی اے اور واسا کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۸۰ء میں پاکستان ٹیلی ویژن ری براڈ کاسٹنگ کا آغاز ہوا۔ ۱۹۸۳ء میں شہر کی آبادی ۱۵ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ آج یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ زرعی یونیورسٹی ، نیاب ، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ، بنجی اور فاریسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ گٹ والا کی وجہ سے اسے سائنس سٹی بھی کہا جاتا ہے
یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اس کی یارن مارکیٹ ایشیاء کی سب سے بڑی یارن مارکیٹ ہے۔ضلع بھر میں تقریبا ۴۰۰ سے زائد بڑے صنعتی کارخانے کام کر رہے ہیں جن میں زیادہ ترسوتی کپڑے کےکارخانے ہیں۔ صنعت و تجارت کے لحاظ سے بھی فیصل آباد ملک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں دو درجن کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے تھے جن کی تعداد ۱۹۴۸ء میں ۴۳ ہو گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں