www.google.com

یادِ یاراں بھی تو نیزے کی انی ہوتی ہے

یادِ یاراں بھی تو نیزے کی انی ہوتی ہے
جاگتے سوتے جو سینے میں گڑی ہوتی ہے

کتنی روحیں ہیں جو یک جان ہوئے ملتی ہیں
میری تنہائی میں بھی بزم سجی ہوتی ہے

آنسو پیتا ہوں میں تلخابۂ شیریں کی طرح
غم کی برسات میں اشکوں کی جھڑی ہوتی ہے

رنج و غم سونپ گیا جاتے ہوئے ہجر کا دُکھ
اب اسی بوجھ سے یہ کمر جھکی ہوتی ہے

خواب سب توڑ دئیے میرے کھلونوں کی طرح
نیند سرہانے مرے موت کھڑی ہوتی ہے

ہڈیوں تک سے جدا ہوتا ہے اب ماس میاں
یہ بڑھاپا ہے یہاں خود سے ٹھنی ہوتی ہے

مفلسی توڑ کے رکھ دیتی ہے رشتے, ناطے
بھوک جب خون کے رشتوں سے بڑی ہوتی ہے

عمر کے ساتھ ڈھلا جاتا ہوں میں بھی اصغر
تابِ خورشید کے سنگ شام ڈھلی ہوتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں