Mian Habib

دائروں کا سفر

ہم پچھلے 76 سالوں سے لکیریں لگا کر دائروں میں سفر کر رہے ہیں سپیڈیں بھی مارتے ہیں لیکن سفر ہے کہ کٹنے کا نام ہی نہیں لیتا وجہ یہ ہے کہ موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والے ساری عمر کرتب ہی دکھاتے رہ جاتے ہیں ان کی نہ کوئی منزل ہوتی ہے نہ وہ کہیں پہنچ پاتے ہیں پاکستان بھی اپنی 76 سالہ زندگی میں اپنے دائرے کے اندر سفر کر رہا ہے ہر دوچار سال بعد ہم ایک نیا دائرہ کھینچتے ہیں اور ازسر نو اس میں سفر شروع کر دیتے ہیں بدقسمتی سے ہم آج تک ٹریک پر نہیں چڑھ سکے کسی نے اگر کوشش بھی کی ہے تو اگلے آنے والے نے محض اس بنیاد پر کہ اس کا آغاز جانے والے نے کیا ہے

اگر اس سفر کو میں نے آگے بڑھایا تو اس کا کریڈٹ اس کے کھاتے میں چلا جائے گا اسی خوف کے باعث وہ کثیر مالیت کے جاری منصوبے راستے میں چھوڑ کر ازسرنو نئے پراجیکٹ شروع کر کے وہاں اپنے ناموں کی تختیاں لگانا شروع کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر حکمران شارٹ ٹرم منصوبے بناکر دکھاوے کے کاموں میں مصروف رہتا ہے جس سے ملک نے ترقی کرناہوتی ہے وہ لانگ ٹرم منصوبے ہوتے ہیں ہمارے ہاں رواج بن گیا ہے کہ ہم سارے کام دکھاوے کے لیے کرتے ہیں آہستہ آہستہ ہم ملک کو ڈنگ ٹپاو طریقوں پر لے آئے ہیں اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ہر حکمران کہتا ہے کسی نہ کسی طرح آج کا دن نکل جائے کل پتہ نہیں کون ہو گا جو ہو گا وہ جانے اس کا کام جانے اس سوچ نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے

ہم نے ملک کو تجربہ گاہ بنا رکھا ہے ہر چوتھے دن ہم کوئی نہ کوئی نیا تجربہ کر رہے ہوتے ہیں ملک میں سسٹم مضبوط ہونے کی بجائے مافیاز مضبوط ہو چکے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک شتر بے مہار ریاست کا روپ دھار چکا ہے جس کا زور چلتا ہے وہ اپنے اصول ضابطوں کے مطابق ہانکنا شروع کر دیتا ہے ایک بار پھر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایک نیا دائرہ کھینچا جا رہا ہے اورپوری توانائیاں لگا کر ایک سبق مٹا کر نیا سبق رٹایا جا رہا ہے نئے کرداروں کے ساتھ نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے لیکن ملین ڈالر سوال ہے کیا جس طرح کے انتخابات کروانے کا ہم فیصلہ کر چکے ہیں

اس سے معرض وجود میں آنے والی حکومت ملک کو مسائل سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی کیا ان انتخابات کی روشنی میں استحکام آسکے گا کیا اکثریت کو اقلیت میں بدلنے سے معاملات حل ہو جائیں گے اگر نہیں ہو سکتے تو پھر یہ سارا کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے معاملات تو ایسے بھی چل رہے ہیں چلتے رہنے دیں لیکن جب بھی انتخابات کروائے جائیں بنیادی جمہوریت کی روح کے مطابق کروائے جائیں سب سیاسی جماعتوں کو ایک جیسا ماحول فراہم کیا جائے اور عوام پر اثر انداز ہونے بغیر عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے جس کو وہ آذادانہ ماحول میں منتخب کریں اسے حق حکمرانی دیا جائے اور پھر اسے کام کرنے کا موقع بھی دیا جائے

ہمیں دائروں کے سفر سے باہر نکلنے کے لیے مستقل طور پر کوئی ایک سسٹم اپنانا ہو گا دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف سسٹم بڑی کامیابی کے ساتھ ڈلیور کر رہے ہیں کہیں بادشاہت ہے، کہیں صدارتی نظام حکومت ہے اور کہیں پارلیمانی نظام حکومت کے مختلف ماڈلز ہیں لیکن ان میں مداخلت نہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کے عوام بھی مطمئن ہیں اور وہ ملک بھی ترقی کر رہے ہیں ہم بنگلہ دیش اور بھارت کا ہی موازانہ کر لیں تو وہ بھی دائروں سے نکل کر ٹریک پر چڑھ چکے ایک ہم ہیں کہ ہمیں دور دور تک کچھ سلجھائی نہیں دے رہا ہم اگر ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو قیام پاکستان کے ابتداء میں ہی حضرت قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہم نے ایسا کھلواڑ کیا کہ آج تک نہیں سنبھل پائے

آدھا ملک گنوا لیا لیکن اپنے آپ کو درست کرنے کی طرف ایک قدم نہیں بڑھایا ابتدا میں ہی اتنی حکومتیں تبدیل ہوئیں کہ جواہر لعل نہرو نے ہمیں طعنہ دے مارا کہ میں نے اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کیں جتنے پاکستان نے وزیراعظم تبدیل کر لیے ہیں 1988 سے لے کر آج تک کے واقعات تو بطور صحافی میں نے خود کور کیے ہیں کہ کس طرح بےنظیر بھٹو کو سمجھوتوں کے تحت اقتدار دیا گیا کس طرح اسے مفلوج کرکے کسی اور کو طاقت کے انجکشن لگائے گئے کس طرح 1990 میں بےنظیر کی حکومت ختم کر کے نواز شریف کو لایا گیا اور پھر نواز شریف کے ساتھ صدر کے اختلافات سے 1993 میں نواز شریف کی حکومت ختم کر کے بے نظیر کو لایا گیا اور 1997 میں بےنظیر کی حکومت ختم کر کے نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دی گئی 1999 میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت کو چلتا کیا گیا 2002 میں کس قدر زور لگا کر دونوں جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھا گیا اور ق لیگ وجود میں لائی گئی پھر 2007 میں پیپلزپارٹی اور 2013 میں نواز شریف کو اقتدار دیا گیا پھر دونوں کے خلاف چور ڈاکو اور احتساب کا زور دار نعرہ لگا کر تیسرے کو لایا گیا اور اب وہ گلے کی ہڈی بن چکا ہے تو زور لگا کر دوبارہ نواز شریف کو قابل قبول بنایا جا رہا ہے آخر کب تک چوہے بلی کا یہ کھیل جاری رہے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں