یوسف عالمگیرین

تدبرکی ضرورت

ہمارے ہاں آئے روز کوئی نہ کوئی غدار سامنے آتا رہتا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ پاکستان کی تاریخ’ غداروں‘ سے بھری پڑی ہے تو بے جانہ ہو گا۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو غدار ورثے میں ملے ہیں۔ میر جعفر اور میر صادق کو غداروں میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ ہم پرائمری کلاسز میں تھے تو ہمیں بتایا جاتا رہا کہ میر جعفر اور میر صادق غدار‘ انگریز مکار اور ہندو شاطر قوم ہے اورجب چھٹی جماعت سے انگریزی کا مضمون شروع ہوا تو ہماری چھٹی جماعت کی انگریزی کی ٹیسٹ بک میں Cunning (مکار)کا لفظ صرف اور صرف انگریزوں کے لئے مختص تھا لیکن جیسے جیسے ہم نے ہوش سنبھالا تو اپنے ملک کے اندر ایسا ایسا Cunningدکھائی دیا کہ انگریز ان کے سامنے معصوم معصوم سے دکھائی دینے لگے۔ انگریز عجب Cunningلوگ ہیں کہ وہ کرپشن اور لوٹ مار سے نفرت کرتے ہیں وہ سرکاری مال ہڑپ کرنے کو کفر گردانتے ہیں۔ ان کے ہاں انصاف کا دور دورہ ہے۔ ان کے ہاں نائی‘ موچی‘ سویپر‘ پلمبر ‘الیکٹریشن‘ مزدور اور دیہاڑی دار لوگ معاشرے کے انتہائی قابل احترام لوگ سمجھے جاتے ہیں۔
میں نے بہت کم انگریزوں کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے اپنے بنکوں سے قرضے لے کر معاف کروائے ہوں۔ ظاہر ہے انگریز اتنے بھی پاکباز نہیں ہیں۔ ان میں بھی ہزاروں برائیاں ہیں لیکن انہیں اس کی قرار واقعی سزا ملتی ہے۔ وہاں کی پولیس یہ نہیں سوچتی کہ ملزم کا تعلق کس خاندان سے ہے۔ یا ملزم کی ذاتی مالی حیثیت کیا ہے۔ وہاں انصاف بکتا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو کوئی شخص غلطی سے وکیل کر لے تو پھر وکیل اس کے ساتھ وہ کرتا ہے کہ وہ عمر بھر یاد رکھتا ہے۔ ہماری کچہریوں میں ویسٹ کوٹ پر سرخ پھول لگا کر جانے والا جب تک سافٹی یا قینچی چپل تک نہ آ جائے اس کی خلاصی نہیں ہوتی۔
عوام کو انصاف اس کی دہلیز پر پہنچایا جانا شائد بہت ضروری ہوتا ہے۔ تبھی چرچل نے اپنے لوگوں سے پوچھا تھا کہ برطانیہ میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے۔ تو پھر مجھے جرمنی اور اس کے حواریوں کے حملوں کی کوئی فکر نہیں۔ گویا قوم نہیں مرتی اسے بددیانتی مارتی ہے۔ ناانصافی مارتی ہے۔ کرپشن‘ لوٹ مار‘ اخلاقی بے راہ روی اور مال و متاع جمع کرنے کی ہوس مارتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھٹی جماعت سے جن لوگوں کو مکار کے معانی سمجھائے جا رہے ہوتے ہیں وہ ایک نہج پر پہنچ کر‘ مڑکر یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہو جاتا ہے کہ مکار کے اصل معانی کیا ہیں؟اسی طرح جیسے جیسے ہماری نسل نے ہوش سنبھالا اسے اس قوم کے مختلف غداروں سے روشناس کرایا جاتا رہا ہے۔ راولپنڈی سازش کیس کو بنیاد بنا کر فیض احمد فیض بھی غدار قرار پائے۔ آج وہی قوم ان کی سالگر اور یوم وفات کو اپنے ایک معتبر دانشور کے طور پر یاد کرتی ہے۔حبیب جالب اور استاد دامن بھی اسی کیٹیگری میں شامل رہے ہیں۔ خان عبدالغفار خان کو بھی غدار قرار دیا جاتا رہا۔ لیکن انہی کی پارٹی اے این پی کے کارکنوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانی قربانیوں سے بھی گریز نہیں کیا۔
خامیاں خوبیاں کسی بھی انسان میں ہو سکتی ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ دنیا میں بے عیب انسان کو تلاش کرنے لگو گے تو تنہا رہ جائو گے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ زندگی کے کسی لمحے انسان سے جو کوتاہی سرزد ہوئی ہوتی ہے اس کو بنیاد بنا کر کسی کو غدار ہی قرار دے دینا شائد درست طرز عمل نہیں ہے۔ بقول صہبا اختر
میں تمہیں مار دوں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید
ہم سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
ہم سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں
ہمارے ہاں جہاں قوم کو بلاضرورت فتوئوں سے بچانے کی ضرورت ہے وہاں ایک دوسرے کو غدار قرار دینے سے گریز کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ ملک کو دہشت گردی سمیت متعدد اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس امر کی متقاضی ہے کہ غدار قرار دیئے جانے کی فیکٹری کو کچھ عرصے کے لئے بند کر دیا جائے اور جس شخص میں حب الوطنی کی باریک سی چنگاری بھی دکھائی دے اس کو ’آن بورڈ‘ لے کر ریاست اور قوم کے حقیقی دشمنوں کو شکست فاش دی جائے ۔ اﷲ اس قوم کوفکر و تدبر کی دولت سے نوازے۔ ’’وماعلینا الالبلاغ‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں