rauf klassra

امیر وزیر، غریب وزیر

کچھ دن قبل میں نے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سمیت ان کے درجن بھر سے زائد وزیروں کے گوشواروں کی تفصیلات بریک کیں۔
قانون کے تحت پبلک آفس ہولڈرز کو الیکشن کمشن کے پاس اپنی جائیدادوں کی تفصیلات دینی پڑتی ہیں۔ اگرچہ سب لوگ نگران سیٹ اپ میں وزیر بننا چاہتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کو یہ بات پسند نہیں آتی کہ انہیں اپنی جائیدادوں یا بنک اکاونٹس کی تفصیلات دینی پڑیں۔ ان جائیدادوں میں پاکستانی اور بیرون ملک موجود جائیدادوں کی تفصیلات دینی ہوتی ہیں۔ لہذا اس موقع پر اکثر سیاستدان گھبراتے ہیں۔ سیاستدانوں سے زیادہ یہ بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس گھبراتے ہیں کہ اگر دنیا کو ان کے اثاثوں کا پتہ چل گیا اور بنک اکاونٹس میں پڑی بھاری رقموں بارے علم ہوگیا تو لوگ کیا سوچیں گے کہ ان کے پاس اتنی بڑی جائیداد کہاں سے آئی۔ اتنا پیسہ حکومتی نوکری میں رہتے ہوئے کہاں سے بنا لیا۔
اب بھی وہی کچھ ہورہا ہے کہ لوگوں کو یقین نہیں آرہا کہ سیاستدانوں کو چھوڑیں یہاں تو بیوررکریٹس کے پاس بھی قارون سے کم خزانہ نہیں ہے۔ لوگوں نے سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ ایک سترہ گریڈ کی نوکری سے شروع کرنے والا سرکاری ملازم گریڈ بائیس تک پہنچ کر ارب پتی کیسے بن جاتا ہے۔ اتنی بڑی جائیداد کیسے بنا لیتا ہے۔ اس کابینہ میں ایک سابق بیوروکریٹ وزیر ایسا ہے جس کا باپ ایکسین ریٹائرڈ ہوا تھا اور اب وہ کہتا ہے وہ سب جائیداد میرے باپ نے مجھے دی تھی۔
اکثر بیوروکریٹ وزیر اب مجھے کال کر کے کہہ رہے ہیں ان کی جائیدادیں وراثتی ہیں۔ لیکن جب ان کی وراثت کو چیک کریں تو پتہ چلتا ہے ایک بیوروکریٹ وزیر کے والد تو سکول ٹیچر تھے اور وہ خود اس وقت ارب پتی بن چکے ہیں۔ کتنے ارب پتی سکول ٹیچر ہوں گے جو سکول پڑھا کر اتنی دولت اکھٹی کر کے اپنے ہونہار بیٹے کو دان کر گئے تھے؟
ایک اور فارن کوالفائیڈ وزیر صاحب ہیں جن کی بیگم کے نام پر کم از کم دو درجن جائیدادیں ہیں۔ جن میں کمرشل پراپرٹی سے لے کر تقریبا کراچی لاہور اسلام آباد تک ہر اہم اور بڑھ ہاوسنگ سوسائیٹی میں پلاٹس ہیں۔ چھ کروڑ روپیہ ان کے اپنے بنک اکاونٹ میں ہے۔ میں نے جب ٹی وی پروگرام میں خبر بریک کی تو انہوں نے کال کی اور کہا آپ بھول گئے ہیں کہ میرے اپنے نام پر بھی جائیدادیں ہیں۔ اپنی بیگم کی دو درجن سے زیادہ کمرشل اور رہائشی پلاٹس بارے کہنے لگے ان کی بیگم کا باپ بہت امیر ہے اور وہ ایکسپورٹر ہے وہ سب جائیدادیں انہوں نے بیٹی کو دی ہیں۔ اب تقریبا سب بیوروکریٹس وزیر یہی جواز دے رہے ہیں کہ یا تو وراثتی جائیدادیں ہیں یا پھر باپ نے بیٹی کو دو درجن کمرشل اور رہائشی پلاٹس خرید کر دیے ہیں ۔ ہماری وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر صاحبہ کے اکاونٹ میں ایک کروڑ ڈالرز پڑے ہیں جو انہوں نے ڈیجٹیل پاکستان میں فکس کرایا ہوا ہے جہاں سے انہیں ڈالروں میں پرافٹ مل رہا ہے۔ ان کے پاس بھی لمبی جائیداد ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا جب وہ وزیرخزانہ بنیں تو وہ اس ایک کروڑ ڈالر پر اپنی ہی وزارت اور اسٹیٹ بنک سے ڈالروں میں پرافٹ لینا وقتی طور پر بند کر دیتیں کہ وہ اب ملک کا خزانہ چلا رہی ہیں۔ یہ مفادات کا ٹکرائو ہوسکتا ہے۔ خیر بعض لوگ سمجھتے ہیں انہوں نے پاکستان میں پیسہ رکھا ہے جس پر انہیں ڈالروں میں پرافٹ مل رہا ہے جو تقریبا 7/8 فیصد کے قریب ہے اور یقینا یہ بہت بڑا پرافٹ ہے جو ڈالروں میں مل رہا ہے اور وہ جب چاہیں اپنا یہ سارا پیسہ واپس اپنے بیرون ملک اکاونٹ میں واپس لے جاسکتی ہیں اور ساتھ میں وہ سارا ڈالروں میں پرافٹ بھی لے جائیں گی۔
مزے کا گوشوارہ وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا ہے۔ ایک بلوچ ہو اور اس کے پاس جانور یا اونٹ نہ ہوں۔ ان کے پاس جانوروں کا بہت بڑا ریوڑ ہے جو تقریبا دس بارہ ہزارجانوروں پر مشتمل ہے۔ اس میں نوے تو صرف اونٹ ہیں۔ سرفراز بگٹی کا بھی مجھے میسج آیا کہ سائیں احستاب کے لیے حاضر ہوں جب کہیں پیش ہو جائوں۔ سرفراز بگٹی میں ایک روایتی بلوچ والا ٹچ ہے۔ دوسروں ساتھ احترام اور عزت سے پیش آتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا دماغ وزیر بن کر بھی خراب نہیں ہوتا۔ وزیر بن کر کمیٹی اجلاسوں میں انہیں دیکھا ہے وہاں بھی ہر ایک سے لڑنے کی بجائے عزت و احترام سے پیش آئے۔ ورنہ حکومتی وزیر اکثر اجلاسوں میں ممبران سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ ایک ایشو پر دو تین دفعہ سینٹرز معذرت بھی کی۔ میں نے کہا سائیں کیا کریں صحافت مشکل کام ہے۔روز نئے دشمن بنتے ہیں۔ ہنس کر بولے سائیں میں اپنے اثاثوں کا احستاب کرانے کو تیار ہوں۔
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا بھی مجھے فون آیا جب ان کے خبر اثاثوں کی خبر بریک کی جس میں ان کے بھی اثاثوں کی تفصیلات شامل تھیں۔ کاکڑ صاحب نے پچھلے ماہ صحافیوں اور اینکرز کو ملاقات میں بتایا تھا ان کے پاس اپنا ذاتی گھر نہیں ہے۔ وہ کوئٹہ 35 ہزار روپے کے کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔اب گوشوارے دیکھے تو واقعی ان کے پاس ذاتی گھر نہیں ہے۔ تاہم اکاونٹ میں مناسب پیسے ہیں۔
مجھے کہنے لگے ان کے پاس بیس ایکٹر آبائی زمین ہے جس پر سیبوں کا باغ ہے جس کا پھل بہت مشہور ہے اور لاہور کی منڈی میں اچھا بکتا ہے۔ میں نے مذاقا جواب دیا کاکڑ صاحب آپ پٹھان بھائی کنجوسی کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی سال میں ایک دفعہ صحافیوں اینکرز کو کچھ سیب بھیجتے تو ہمیں بھی علم ہوتا آپ کے باغات ہیں۔ جہانگیر ترین ہر سال صحافیوں کو آم بھیجتا ہے اپنے بدترین مخالفین اور ناقدین کو بھی لہذا سب کو علم ہے ان کے آموں کے باغات ہیں۔ اب آپ کنجوسی کرتے ہیں تو کیا کہا جاسکتا ہے۔
کاکڑ صاحب نے قہقہ مارا اور کہا شاید آپ درست کہہ رہے ہیں کوئٹہ کا پٹھان کنجوسی کر گیا۔
خیر ان وزیروں کے گوشواروں میں جو وزیر سب سے غریب نکلا وہ مرتضے سولنگی ہیں۔ انہوں نے صحافت کا اغاز تیس پینتس سال پہلے نئے انگریزی اخبار سے کیا، وائس آف امریکہ میں برسوں امریکہ جا کر کام کیا، وطن واپسی پر ڈی جی ریڈیو رہے، پھر ٹی وی پر اینکر کے طور پر کام کیا اور اب پتہ چلا ہے کل اثاثوں کی لاگت صرف دو کروڑ روپے ہے۔
ایک طرف آپ کابینہ میں بیٹھے سابق بیوروکریٹس کے اثاثے دیکھیں تو لگے گا سب ارب پتی ہیں اور دوسری طرف مرتضے سولنگی آپ کو غریب لگے گا۔سولنگی سے زیادہ اثاثے تو میرے پروڈیوسر رانا اشرف کے ہوں گے۔
سولنگی صاحب سے تعلق خراب ہوا جو کبھی ٹھیک نہ ہوا جب ملتان ریڈیو کے ایک پرانے دوست کا بلوچستان ٹرانسفر ہوا۔ وہ ڈی جی ریڈیو تھے۔ ان سے کہا مناسب سمجھیں تو اسے ملتان رہنے دیں ان کے چھوٹے بچے ہیں۔تعلق کے باوجود سولنگی صاحب نے سیدھا جواب دیا کہ رئوف سائیں کبھی میں نے آپ کی صحافت میں مداخلت کی ہے کہ فلاں خبر کریں اور فلاں نہ کریں۔
میں نے کہا نہیں۔
بولے تو پھر آپ کیوں میرے کام میں مداخلت کررہے ہیں؟
میں شرمندہ بھی ہوا اور پھر کبھی ان سے نہ ملا نہ کبھی کام کہا۔
تین سال بعد لندن میں تھا کہ ان کا میسج ملا کہ سائیں آپ کا کام کر دیا ہے۔آپ کا بندہ واپس ملتان آگیا ہے۔
مجھے ہنسی آئی کہ تین سال بعد کام ہوگیا تھا۔
خیر اب وہ وزیر بنے تو انہوں نے سیکرٹری راشد لنگڑیال ساتھ بجلی بلز پر بریفنگ دی تو میں بھی دیگر صحافیوں ساتھ گیا۔
بریفنگ ختم ہوئی تو اصرار کر کے چائے پلانے دفتر لے گئے۔ بڑے فخر سے کہا کہ ان سے پہلے یہاں اچھے خاصے خرچے اور کھانے چلتے تھے۔ لیکن میں نے سب کچھ بند کرا دیا ہے۔اب آپ کو صرف چائے کافی ساتھ بسکٹس مل سکتے ہیں۔
میں نے راشد لنگڑیال صاحب کی طرف دیکھا اور مذاق میں کہا جب ہماری باری لگی ہے تو سولنگی صاحب نے سب کچھ بین کر دیا ہے کہ لوگ واہ واہ کریں گے۔ان سے پہلے وزیروں نے کھل کر کھانے کھائے، عیاشیاں کیں وہ کسی سے نہیں ڈرے۔ اب سولنگی صاحب کریڈٹ لے رہے ہیں کہ میں نے سب کچھ بند کر دیا ہے۔
میں نے کہا صبر کریں پچھلوں کو واپس آنے دیں،فروری الیکشن کے بعد وہ وہیں سے سب کچھ شروع کریں گے جہاں وہ اگست میں چھوڑ گئے تھے۔
سولنگی صاحب جو مجھ سے اپنے فیصلے کی داد لینا چاہ رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس بات پر ہنسیں کہ روئیں

اپنا تبصرہ بھیجیں